شب برات

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شب برات
by نظیر اکبر آبادی

کیونکر کرے نہ اپنی نموداری شب برات
چلپک چپاتی حلوے سے ہے بھاری شب برات
زندوں کی ہے زباں کی مزیداری شب برات
مردوں کی روح کی ہے مددگاری شب برات
لگتی ہے سب کہ دل کو غرض پیاری شب برات

شکر کا جن کہ حلوہ ہوا وہ تو پورے ہیں
گڑ کا ہوا ہے جن کہ وُہ ان سے ادھورے ہیں
شکر نہ گڑ کا جن کہ وہ پرکٹ لنڈورے ہیں
اوروں کہ میٹھے حلوے چپاتی کو گھورے ہیں
ان کی نہ آدھی پاؤ نہ کچھ ساری شب برات

دنیا کی دولتوں میں جُو زردار ہیں بڑے
قندوں کہ حلوے روغنی نانیں لیے کھڑے
پہنچائے خوان پھرتے ہیں نوکر کئی پڑے
زندے بھی راہ تکتے ہیں مردے بھی ہیں کھڑے
ان خوبیوں کو رکھتی ہے تیاری شب برات

ٹھلیاں چپاتی حلوے کی تُو سب میں چال ہے
ادنیٰ غریب کہ تئیں یہ بھی محال ہے
کالے سے گڑ کی لپٹی کڑھی کی مثال ہے
پانی سے ہانڈی گیہوں کی روٹی بھی لال ہے
کرتی ہے ایسی دکھیا پنساری شب برات

اور مفلسوں کی ہے یہ تمنا کی فاتحہ
دریا پہ جا کہ دیتے ہیں بابا کی فاتحہ
بھٹیاری کہ تنور پہ نانا کی فاتحہ
حلوائی کی دکان پہ دادا کی فاتحہ
یاں تک تُو ان پہ لاتی ہے ناچاری شب برات

وارث ہیں جن کہ جیتے وُہ مردے بھی آن کر
حلوے چپاتی خوب ہی چکھتے ہیں پیٹ بھر
جن کا کوئی نہیں ہے وُہ پھرتے ہیں در بدر
اوروں کہ لگتے پھرتے ہیں کونوں سے گھر بہ گھر
ان کی ہے کھاری نون سے بھی کھاری شب برات

ملا جُو دینے فاتحہ گھر گھر میں جاتے ہیں
حلوہ کہیں کہیں وُہ چپاتی اڑاتے ہیں
مفلس کوئی بلاوے تُو منہ کو چھپاتے ہیں
شکر کا حلوہ سنتے ہی بس دوڑے جاتے ہیں
کہتے ہوئے یہ دِل میں اہا ہا ری شب برات

چھوڑے ہے لٹو تونبڑی ہر دم بنا کہ جُو
حاکم کا پیادہ کہتا ہے یُوں اس سے تلخ ہو
کپڑے بدن بچا کہ جُو چاہو سو چھوڑ دو
چھپر جلاؤ گے تُو دلاوے گی صبح کو
تم سے چبوترے میں گنہ گاری شب برات

پھرتے ہیں عشق باز جُو لڑکے کی گھات میں
ٹونٹا ہی لے کہ دیتے ہیں لڑکے کہ ہاتھ میں
مہتابی آ کہ چھوڑیں ہیں لڑکے جُو رات میں
کیا زرکیاں سی چھوڑے ہیں ہنس ہنس کے بات میں
کرتی ہے کام ان کہ بھی یوں جاری شب برات

جُو رنڈی باز ہیں وُہ بہت دِل میں شاد ہو
کیا کیا انار چھوڑے ہیں بشنی ہو روبرو
اے بی تم اپنی کلھیا ہمیں چھوڑنے کو دو
اُور چاہو تم ہمارا یہ ہت پھول چھوڑ لو
ہو جائے جس کہ چھٹتے ہی پھلواری شب برات

اُور جُو بہار حُسن کہ ہیں پاکباز یار
گلکاری چھوڑے ہیں جہاں محبوب گلعذار
کہتے ہیں ان کو دیکھ کہ آنکھوں میں کر کہ پیار
کیا چاہیے میاں تمہیں ہت پھول اور انار
تم پر تُو آپ ہوتی ہے اب واری شب برات

گھن چکر اپنے دم میں کہیں چرخ کھاتے ہیں
ٹونٹے ہوائی سینک کہیں قہقہہاتے ہیں
زینپٹ زپٹ پٹاخے کہیں غل مچاتے ہیں
لڑکوں کہ باندھ غول کہیں لڑنے جاتے ہیں
کرتی ہے پھر تُو ایسی دھواندھاری شب برات

آ کر کسی کہ سر پہ چھچھوندر لگی کڑی
اوپر سے اُور ہوائی کی آ کر پڑی چھڑی
ہو گئی گلے کا ہار پٹاخے کی ہر لڑی
پاؤں سے لپٹی شور مچا کر قلم تڑی
کرتی ہے پھر تُو ایسی ستم گاری شب برات

چہرہ کسی کا جل گیا آنکھیں جھلس گئیں
چھائی کسی کی جل گئیں باہیں جھلس گئیں
ٹانگیں بچیں کسی کی تُو رانیں جھلس گئیں
مونچھیں کسی کی پھک گئیں پلکیں جھلس گئیں
رکھے کسی کی داڑھی پہ چنگاری شب برات

کوئی دوستوں کو دِل میں سمجھتا ہے اپنے غیر
کوئی دشمنوں سے دِل کا نکالے ہے اپنا بیر
کہتا ہے واں نظیرؔ بھی آتش کی دیکھ سیر
یا رب تُو سب کی کیجیو برسا برس کی خیر
بے طرح کر رہی ہے نموداری شب برات

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse