شاہی سیر کشمیر/شاہجہاں کی سیاحت کشمیر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

شاہجہاں عالم شہزادگی میں تو باپ کے ساتھ کئی مرتبہ کشمیر کی سیر کر چکا تھا لیکن جب سے بادشاہ ہوا تھا نہ لاہور آیا تھا اور نہ کشمیر ہی گیا تھا۔ جلوس کے ساتویں سال یعنی ١٠٤٣؁ھ مطابق 1634ء؁ میں تیسری شعبان کو وہ اکبر آباد (آگرہ) سے لاہور کشمیر کی سیر کے لیے روانہ ہوا۔

بادشاہ عدل پرور اور رعایا گستر تھا۔ اُس نے حکم دیا کہ لشکر کے گزرنے سے رعایا پامال نہ ہو۔ اگر لوٹنے والے کے ہاتھوں میں زراعت کا ایک پودا بھی دیکھا جائے تو اس کے ہاتھ کاٹ ڈالے جائیں اور صاحب کاشت کو اس کی قیمت دُگنی دلائی جائے۔ اور اگر کہیں بہ امر مجبوری افواج کی کثرت اور انبوہ عظیم اور راہوں کی تنگی خصوصاً کوہستانی رستوں کی مشکلات کی وجہ سے زراعت پامال بھی ہو تو خدا ترس امین اس کی برابر درد بنائیں اور رعیت کا حصہ رعیت کو اور جاگیردار کا حصہ جاگیردار کو بشرطیکہ دو ہزاری منصب سے کم درجہ رکھتا ہو، سرکار سے نقد دلایا جائے۔

دوستو! یہ خالی باتیں ہی نہ تھیں۔ طفل تسلیوں کے لیے کاغذی ناؤ ہی نہیں چلتی تھی۔ حصول انصاف کے لیے روپیہ پانی کی طرح بہا دینے کے باوجود مہینوں اور برسوں تک انتظار نہیں کرنا پڑتا تھا۔ ان باتوں پر عمل ہوتا تھا اور سختی سے ہوتا تھا اور فوراً ہوتا تھا۔

بادشاہ 6 شوال کو لاہور پہنچا۔ آصف خاں (نور جہاں کے بھائی) نے اپنی عالیشان حویلی(١) میں بادشاہ کی دعوت کی اور چھ لاکھ روپیہ پیشکش میں دیا۔ ٢٤ ذیقعدہ کو بادشاہ کشمیر روانہ ہوا۔ لاہور سے بھمبر تک اپنے رعایا پرور احکام کی تعمیل کراتا آیا۔ یہاں اونٹوں کو چھوڑ دیا گیا اور باربرداری کے لیے گھوڑے اور خچر مہیا کیے گئے۔ بھمبر سے کوہستان کشمیر اُس زمانہ میں بارہ منزل اور 47 کوس تھا۔ جہانگیر نے گیارہ منزلوں میں عمارتیں تعمیر کرائی تھیں۔ ہر ایک عمارت میں دولت خانہ خاص بھی بنایا۔ بادشاہ رستے کے مناظر دیکھتا، لوگوں کی فریادیں اور شکایتیں سنتا، رؤسا امرا کی نذریں قبول کرتا 18 ذی الحجہ یعنی 24 دن کے بعد کشمیر کے دارالخلافہ سری نگر میں پہنچا۔ اس زمانہ میں ظفر خاں احسن گورنر کشمیر تھا۔ شاہجہاں ہر صبح و شام دلکشا باغوں میں بزم نشاط آراستہ کرتا اور لالہ دریا، حسین اشجار سراپا بہار و اثمار رنگیں، انہار و چشمہائے زلال و شیریں سے دل و دماغ کو فرحت بخشتا۔ بادشاہ نے محرم یہیں گزارا۔ 12 ربیع الاول کو محفل میلاد اپنے خاص اہتمام سے منعقد کی اور خاص و عام کو اس میں بلایا۔ اس موقع پر کشمیر کے علما و فضلا، صلحا و حفاظ کو خلعت گراں بہا مرحمت فرمائے۔ مددِ معاش میں کسی کو جاگیر دی، کسی کا نقد روزینہ مقرر کر دیا۔ حکم دیا کہ ہرسال بادشاہ کی طرف سے محفل میلاد بارہ ہزار روپے کے خرچ سے ہوا کرے۔

کشمیر میں بادشاہ قریباً تین مہینے تک رہا۔ 23 ربیع الاول کو کشتی کے رستے پانپور اور بج بہارہ سے ہوتا ہوا اننت ناگ آیا جو اسلام خاں کی جاگیر میں تھا۔ بادشاہ نے اس کا نام اسلام خاں کے نام پر اسلام آباد رکھا اور یہاں دلنشیں عمارتوں کی تعمیر کا حکم دیا۔

بادشاہ یہاں کشتی کی بجائے تخت رواں پر کہ خود ہی اس کا موجد بھی تھا، سوار ہوا۔ 7ربیع الثانی کو رستے ہی میں جشن قمری کیا۔ قرب و جوار کے محتاجوں، غریبوں اور مستحقین کو خیرات و عطیات سے مالا مال کر دیا۔ 27 ربیع الثانی کو بھمبر میں منزل ہوئی جو اس رستے سے سفرِ کشمیر کی آخری کوہستانی منزل ہے۔

اسی مقام پر بادشاہ کی پینتالیسویں سالگرہ کا جشن منعقد ہوا۔ شاہی کلاونت جگن ناتھ بادشاہ کے ساتھ رہتا تھا۔ اس نے ہندی دوہڑے سنا سنا کر بادشاہ کو ایسا محظوظ کیا کہ بادشاہ نے حکم دیا اس کو روپیہ سے تولا جائے۔ اس کو تولا گیا تو اس کا وزن ساڑھے چار ہزار روپئے کے برابر نکلا جو بادشاہ کی طرف سے بطور انعام دے دیے گئے۔

بادشاہ گو اسی رستے کشمیر گیا تھا، لیکن روانگی کے وقت معمولی قیام ہواتھا۔ واپسی پر یہاں اپنی سالگرہ کے جشن کی وجہ سے اُسے کئی دن ٹھہرنا پڑا اور اس لیے کئی باتیں اس کے نوٹس میں لائی گئیں۔

جہانگیر کے سفر کشمیر میں ناظرین نے پڑھا ہو گا کہ علاقہ راجور میں مسلمان ہندوؤں سے لڑکیاں لیتے بھی تھے اور دیتے بھی تھے۔ جہانگیر کو جب قیام راجور کے ایام میں اس کا علم ہوا تو اس نے اس رسم کو مٹانے کے لیے نہایت سخت احکام جاری کیے۔

شاہجہاں بھمبر میں تھا کہ اسی قسم کی شکایتیں اس کے بھی گوش گزار ہوئیں۔ اس کو بتایا گیا کہ بھمبر کے مسلمان کلمہ تو پڑھ لیتے ہیں لیکن اس کے معنی نہیں جانتے۔ اسلام کی تعمیل سے قطعاً بے خبر ہیں۔ ہندوؤں سے رشتہ داریاں کرتے، ان سے بیٹیاں لیتے اور ان کو بیٹیاں دیتے ہیں۔ ہندو کی لڑکی جو مسلمان کی بیوی ہے، مرنے کے بعد دفن کی جاتی ہے اور مسلمان کی لڑکی جو کسی ہندو کی عورت ہے، مرنے کے بعد جلائی جاتی ہے۔ بادشاہ نے حکم دیا میرے باپ کے احکام کی پھر تجدید کی جائے اور جس ہندو کے گھرمیں کوئی مسلمان عورت ہو، اگر وہ ہندو مسلمان ہو جائے تو عورت کا نکاح از سر نو اس سے کیا جائے اور اگر وہ ہندو مسلمان نہ ہو تو مسلمان عورت کو اس سے علاحدہ کر لیا جائے۔ لیکن قبولیت مذہب کے معاملہ میں سختی نہ کی جائے۔ بھمبر کا راجا جو ہندو تھا اور جس کے محل میں کئی مسلمان عورتیں تھیں مسلمان ہو گیا۔ بادشاہ نے راجۂ دولتمند اس کو خطاب دیا۔ راجہ دولت مند کی تقلید جگہ جگہ ہونے لگی۔ یہاں تک کہ گجرات و بھمبر کے علاقہ میں چار سو ہندو جن کے گھروں میں مسلمان بیویاں تھیں ، مسلمان ہو گئے۔ بادشاہ نے مسلموں کو احکام شریعت اور آداب عبادت سکھانے کےلیے قاضی اور معلم مقرر کیے۔

بادشاہ جب بھمبر سے حوالیٔ گجرات میں آیا تو قصبہ کے مشائخ و سادات نے یہ استغاثہ پیش کیا کہ بھمبر کی طرح یہاں بھی کئی ہندو مسلمان عورتوں کو اپنے تصرف میں رکھتے ہیں اور کئی مسجدوں پر انہوں نے قبضہ جما رکھا ہے، بلکہ ان کو مکانات کی شکلوں میں تبدیل کر لیا ہے۔ بادشاہ نے شیخ محمود گجراتی کو اس مقدمہ کی چھان بین اور تحقیقات کے لیے مقرر کیا۔ اس نے تحقیقات کرنے کے بعد بادشاہ کے حکم سے کئی مسلمان عورتوں کو ہندوؤں کے قبضہ سے نکالا اور متدین اور پرہیز گار مسلمانوں کے ساتھ اُن کے نکاح کیے۔ کئی مسجدیں ہندوؤں سے واپس لیں جن کی شکلیں تبدیل کر دی گئی تھیں۔ ان کی تعمیر و مرمت کے لیے روپیہ بھی انہی سے لیا۔ جن لوگوں نے قرآن مجید کی نہ صرف بے ادبی کی تھی، بلکہ مسلمانوں کی دل آزاری کےلیے مسلمانوں کو دکھا دکھا کر جلایا کرتے تھے، بعد از ثبوت ان کو قتل گاہ میں لے جا کر پھانسی دی گئی۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ مہمات شرعی کے متکفل سارے پنجاب میں اس بات کی تحقیق کریں کہ کہاں کہاں مسلمان عورتیں ہندوؤں کے قبضہ میں ہیں اور جہاں کہیں ایسی صورت ہو فوراً احکام شاہی کی تعمیل کرائی جائے۔

بادشاہ 25 شوال ١٠٤٩؁ھ کو پونچھ کے راستے سے پھر کشمیر کو روانہ ہوا۔ اس زمانہ میں بھی ظفر خاں احسن ہی گورنر تھا۔ اس سفر کی تین باتیں قابل ذکر ہیں، ایک تو یہ کہ سلطان مراد (ٹرکی کا سفیر) ارسلان آقا بادشاہ کی خدمت میں آیا۔ چونکہ بادشاہ ان دنوں کشمیر میں تھا۔ اس لیے سفیر روم کو بھی کشمیر ہی میں بُلوا لیا گیا۔ جہاں بادشاہ نے اس کو کشمیر کی خوب سیر کرائی۔

ڈل اور ولر کے کناروں پر نواب علی مردان خاں نے اس کثرت اور اس خوبی سے چراغوں کی روشنی کرائی کہ بادشاہ بہت خوش ہوا۔ شاہجہاں نے سُنا کہ ان ایام میں سنگ سفید پر جو سری نگر سے دو تین منزل کے فاصلہ پر ہے، بڑی بہار ہے۔ رستہ ہر چند بڑا دشوار گزار اور ناہموار بتایا گیا۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ وہاں موقع بے موقع عموماً بارش ہوتی رہتی ہے۔ لیکن بادشاہ نے فرمایا وہ جگہ ضرور دیکھنی چاہیے۔ چنانچہ ضروری سامان کے ساتھ تیاریاں شروع ہو گئیں۔ ابھی منزل مقصود پر پہونچے بھی نہیں تھے کہ مینہ اس زور سے برسا اور ہوا میں ایسی خُنکی پیدا ہو گئی کہ سوار اور پیدل اور انسان اور حیوان سب لرزہ براندام ہو گئے۔ جنس پختہ یا خام جیسی ہمراہ تھی ویسی ہی رہی۔ نہ اس کو کھانے پکانے کی فرصت ملی اور نہ اس کی مناسب احتیاط ہو سکی۔ تین چار روز تک بارش اور ہوا کا برابر ساتھ رہا۔ آسمانوں اور پہاڑوں سے پانی کے نالے بہتے تھے اور پتھروں سے پانی اس زور سے ٹکرا رہا تھا کہ دور دور تک آواز جاتی تھی۔ بلکہ کیچڑ اور پانی کی طغیانی سے راہیں بالکل ناپید ہو گئیں۔ بادشاہ ہمراہیوں سمیت واپس آیا۔ رستے میں پانی کی شدت اور دلدل کی کثرت کی وجہ سے آدمی اور گھوڑے بہت ضائع ہوئے۔ چار کوس کی منزل چھ پہر میں طے کی گئی اور مینہ نے پھر بھی فرصت نہ دی۔

اس سال طغیانی و سیلاب سے ڈل کے چار ہزار گھر اور دریا کے کنارے پر جو گاؤں آباد تھے، ان میں سے چار ہزار گھر اور پرگنات بھمبر وغیرہ کے دیہات میں سے چار سو ستاسی گھر خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے۔ اس سے سمجھ لینا چاہیے کہ زراعت کا کیا حال ہوا ہو گا اور قحط کی شدت اور اجناس کی نایابی نے کیا ستم ڈھایا ہو گا۔ سری نگر میں صدہا مکانات منہدم ہو گئے۔ کئی دنوں تک بازار بند رہے اور آمد و رفت بالکل موقوف ہو گئی۔ بادشاہ اس مرتبہ 6 ماہ تک کشمیر رہا۔ لیکن قحط و سیلاب کی خوفناک حالت دیکھ کر 7جمادی الثانی ١٠٥٠؁ھ کو واپس روانہ ہوا اور غرّۂ شعبان کو لاہور پہنچ گیا۔

بادشاہ نے لاہور پہنچ کر ڈیڑھ لاکھ روپیہ کشمیر کے قحط زدہ لوگوں کی امداد کے لیے بھیجا۔ ظفر خاں احسن ناظم کشمیر نے رعایا کی طرف سے بادشاہ کا شکریہ ادا کیا اور عرض کیا کہ اگر تیس ہزار روپیہ تخم ریزی کے لیے زمینداروں کو مزید مرحمت ہو تو ملک آبادی و خوشحالی کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ بادشاہ نے اسے منظور کرلیا۔

تیسری مرتبہ بادشاہ 6صفر ١٠٥٤؁ھ کو لاہور سے کشمیر کی طرف روانہ ہوا۔ اس زمانہ میں بھی ظفر خاں احسن ناظم کشمیر تھا۔ اسی سفر میں بادشاہ نے چشمہ ویر ناگ کی مرمت کا حکم دیا اور چشمہ کے منبع پر ایک آبشار تعمیر کرائی جس کے ایک پتھر پر ؏:

از چشمہ بہشت برو آمدست جُو

تاریخ تعمیر کندہ ہے۔ (چشمہ بہشت 1073، جوئے 19۔1054؁ھ)

بادشاہ کی پیاری بیٹی جہاں آرا بیگم نے جو بادشاہ بیگم کے خطاب سے ملقب تھی، صفاپور میں جو بادشاہ بیگم کی جاگیر میں اور اپنی خوبیوں اور اپنے دلکش مناظر کی وجہ سے اسم بامسمیٰ تھا، بادشاہ کی ضیافت کی اور مانس بل کے ارد گرد ایسی دیدہ فروز روشنی کی کہ بادشاہ بہت خوش ہوا۔ شہزادی نے بہت سا نقد و جواہر بادشاہ کی پیشکش میں دیا۔

بادشاہ نے چوتھا یعنی آخری سفر کشمیر جلوس، بست و پنجم ١٠٦٠؁ھ و ١٠٦١؁ھ میں کیا۔ اس سفر میں بادشاہ اپنے بیٹے دارا شکوہ کے مرشد ملا شاہ بدخشانی کی ملاقات کےلیے اس مسجد(١) میں گیا جو جہاں آرا بیگم نے اپنے بھائی دارا شکوہ کے پیر کی خوشنودی کے لیے چالیس ہزار روپے کی لاگت سے زیارت حضرت مخدوم صاحب کے قرب میں تعمیر کرائی تھی اور جس کے اطراف میں فقرا و طلبا کے رہنے کے لیے مکانات بھی تعمیر کرائے گئے تھے۔ ملاشاہ نے جو اپنی حق آگاہی و صفا کیشی کی وجہ سے پنجاب و کشمیر میں بہت مشہور تھے، بادشاہ کی آمد پر ایک نظم پڑھی۔ جس کا پہلا شعر یہ ہے:

امروز شاہ شاہاں مہماں شد است ما را

جبرئیل با ملائک درباں شد است ما را

بادشاہ مسجد میں گیا اور حضرت شاہ صاحب کے پاس دیر تک بیٹھ کر ان کی نصیحت آموز باتیں سُنتا رہا۔ اس زمانہ میں کشمیر کا گورنر حسن بیگ خاں تھا جس کا عہد حکومت صرف ڈیڑھ سال ہی رہا ہے۔

جب بادشاہ کشمیر میں تھا تو لوگ خشک سالی کی وجہ سے بہت بے چین تھے۔ آخر مینہ برسا تو ایسا برسا کہ زراعت تو ایک طرف، گلزار اور سبزہ زار اور ثمرہ دار درخت سب تباہ ہو گئے۔ اس وقت بادشاہ کو کشمیر میں آئے ہوئے دو ماہ ہو چکے تھے۔ طبیعت اس قسم کے واقعات دیکھ کر بہت پراگندہ ہو گئی۔ فرمایا “لاہور اور شاہجہاں آباد کے باغات و مرغزار و مصفیٰ و مجلیٰ مکانات چھوڑ کر محض حظ نفس کے لیے اس مسافت بعیدہ کو طے کرنا اور مختلف پیرایوں میں خلق خدا کو مصیبت و تکلیف میں مبتلا کرنا خدا پرستوں کے نزدیک مناسب نہیں ہے”۔ دریا کو عبور کرنے میں پُل جو بہت پرانا تھا، ٹوٹ گیا۔ ڈھائی سو آدمی، کئی جانور اور بہت سا اسباب دریا میں جا پڑا جس میں سے ایک سو آدمی طعمۂ نہنگ اجل ہو گئے۔ اس سے بادشاہ کی طبیعت اور بھی مکدر ہو گئی اور پھر جب تک کہ وہ بادشاہ رہا، یعنی ١٠٦٨؁ھ تک کشمیر میں نہیں آیا۔