شام تکلیف کی دنیا میں سحر ہو تو سہی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شام تکلیف کی دنیا میں سحر ہو تو سہی
by میرزا الطاف حسین عالم لکھنوی

شام تکلیف کی دنیا میں سحر ہو تو سہی
ہائے کم بخت کہیں درد جگر ہو تو سہی

بیٹھنے والے نہ بیٹھیں گے کبھی محفل میں
او ستم گر ترے دل میں مرا گھر ہو تو سہی

دل بے تاب کا ملنا نہیں مشکل لیکن
ہاتھ بھر کا کسی سینے میں جگر ہو تو سہی

ہم یہ سمجھیں گے کہ دل تھا ہی نہیں سینے میں
ان کی دزدیدہ نگاہوں کا اثر ہو تو سہی

چھپ گیا آنکھوں سے اک نور بس اتنا کہہ کر
کیا بتانے میں حرج تھا کوئی گھر ہو تو سہی

کہہ کے یہ پھر گئی تھیں کاہکشاں سے آنکھیں
تجھ سے ملتی ہوئی وہ راہ گزر ہو تو سہی

پھر دکھاؤں گا میں انمول جواہر عالمؔ
مری قسمت سے کوئی اہل نظر ہو تو سہی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse