شادمانی کا کبھی غم کا کبھی جوش رہا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شادمانی کا کبھی غم کا کبھی جوش رہا
by بیتاب عظیم آبادی

شادمانی کا کبھی غم کا کبھی جوش رہا
ایک سودا رہا جب تک کہ مجھے ہوش رہا

جز تری یاد کے سب دل سے فراموش رہا
مرتے مرتے دیوانے کو یہ ہوش رہا

رخ پر نور سے بس ان کا الٹنا تھا نقاب
کون کمبخت تھا ایسا کہ جسے ہوش رہا

یہ بھی احساں ہے جو اس نے نہ دیا کوئی جواب
شوق امید کا حامی لب خاموش رہا

بے دھڑک سامنے محشر کی وہ آنہ تیرا
دیکھ لینا جو کسی ایک کو بھی ہوش رہا

کس سے فریاد ستم کرتے ملا جب کہ نہ تو
تو ملا جب تو ستم تیرا فراموش رہا

راز سر بستۂ مے خانہ نہ کھلنے پایا
آشنائے لب ساغر لب مے نوش رہا

درد رہ رہ کے مرے دل میں اٹھا کرتا ہے
تیرا احساں کہ تجھے میں نہ فراموش رہا

بار احساں ہے مرے سر پہ ترا او قاتل
سر جدا ہونے پہ بھی میں نہ سبک دوش رہا

درد اٹھتے ہی تڑپنے لگانا محرم راز
جو ادا سے تری واقف تھا وہ خاموش رہا

کیا کہوں موت نے کس راز کی دی آ کے خبر
بات ہی کچھ تھی وہ ایسی کہ میں خاموش رہا

جان بیتابؔ کی آخر شب تنہائی نے لی
تو کہاں شام سے او وعدہ فراموش رہا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse