سینے پہ کتنے داغ لیے پھر رہا ہوں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سینے پہ کتنے داغ لیے پھر رہا ہوں میں
by نیر سلطانپوری

سینے پہ کتنے داغ لیے پھر رہا ہوں میں
زخموں کا ایک باغ لیے پھر رہا ہوں میں

ڈر ہے کہ تیرگی میں قدم ڈگمگا نہ جائے
اک شہر بے چراغ لیے پھر رہا ہوں میں

ساقی نہ پوچھ آج کے شیشہ گروں کا حال
ٹوٹا ہوا ایاغ لیے پھر رہا ہوں میں

کیا جانے کس کے نام ہے یہ نامۂ کرم
ملتا نہیں سراغ لیے پھر رہا ہوں میں

پوچھے نہ جس کو حال نہ مستقبل حسیں
ماضی کا وہ دماغ لیے پھر رہا ہوں میں

نیرؔ ہو ایسے دور میں کیا روشنی کی بات
بن تیل کا چراغ لیے پھر رہا ہوں میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse