سینے میں اگر ہو دل بیدار محبت

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سینے میں اگر ہو دل بیدار محبت
by جگر مراد آبادی

سینے میں اگر ہو دل بیدار محبت
ہر سانس ہے پیغمبر اسرار محبت

وہ بھی ہوئے جاتے ہیں طرفدار محبت
اچھے نظر آتے نہیں آثار محبت

ہشیار ہو اے بے خود و سرشار محبت
اظہار محبت! ارے اظہار محبت

تا دیر نہ ہو دل بھی خبردار محبت
اک یہ بھی ہے انداز فسوں کار محبت

توہین نگاہ کرم یار کہاں تک
دم لینے دے اے لذت آزار محبت

سب پھونک دیئے خار و خس مذہب و ملت
اللہ رے یک شعلۂ رخسار محبت

کونین سے کیا اہل محبت کو سروکار
کونین ہے خود حاشیہ بردار محبت

جو عرش کی رفعت کو بھی اس در پہ جھکا دے
ایسا بھی کوئی جذبۂ سرشار محبت

میں نے انہیں تاریک فضاؤں میں بھی اکثر
دیکھے ہیں برستے ہوئے انوار محبت

ناصح کو ہے کیوں میری محبت سے سروکار
چہرے سے تو کھلتے نہیں آثار محبت

میں اور یہ نمکین غم عشق ارے توبہ
تو اور یہ احساس گراں بار محبت!

اب عرض محبت کی جگرؔ کیوں نہیں جرأت
وہ سامنے ہیں گرم ہے بازار محبت

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse