سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا
by خواجہ میر درد

سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا
بس ہجوم یاس جی گھبرا گیا

تجھ سے کچھ دیکھا نہ ہم نے جز جفا
پر وہ کیا کچھ ہے کہ جی کو بھا گیا

کھل نہیں سکتی ہیں اب آنکھیں مری
جی میں یہ کس کا تصور آ گیا

میں تو کچھ ظاہر نہ کی تھی جی کی بات
پر مری نظروں کے ڈھب سے پا گیا

پی گئی کتنوں کا لوہو تیری یاد
غم ترا کتنے کلیجے کھا گیا

مٹ گئی تھی اس کے جی سے تو جھچک
دردؔ کچھ کچھ بک کے تو چونکا گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse