سینہ تو ڈھونڈ لیا متصل اپنا ہم نے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سینہ تو ڈھونڈ لیا متصل اپنا ہم نے
by حسرتؔ عظیم آبادی

سینہ تو ڈھونڈ لیا متصل اپنا ہم نے
نہیں معلوم دیا کس کو دل اپنا ہم نے

عہد کیا کر کے ترے در سے اٹھے تھے قسمت
پھر دکھایا تجھے روئے خجل اپنا ہم نے

میری آلودگیوں سے نہ کر اکراہ اے شیخ
کچھ بنایا تو نہیں آب و گل اپنا ہم نے

سخت کافر کا دل افسوس نہ شرمایا کبھی
پوجا جوں بت تو بہت سنگ دل اپنا ہم نے

پانی پہنچا سکے جب تک مری چشم نمناک
جل بجھا پایا دل مشتعل اپنا ہم نے

بعد سو رنجش بے جا کے نہ پایا بغلط
نہ پشیمان تجھے منفعل اپنا ہم نے

در غریبی نہ تھا کچھ اور میسر حسرتؔ
عشق کی نذر کیا دین و دل اپنا ہم نے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse