سیر چمن ہے اور وہ گل رو کنار میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سیر چمن ہے اور وہ گل رو کنار میں
by صفی اورنگ آبادی

سیر چمن ہے اور وہ گل رو کنار میں
میں بے پیے بھی مست ہوں اب کی بہار میں

کب سے ہوں کیا بتاؤں تلاش بہار میں
اک پھول بھی نہ تھا چمن روزگار میں

چالیں نئی نئی سی ہیں رفتار یار میں
پڑ جائے گا خلل روش-روزگار میں

دل اور جان دونوں بھی ہیں کس شمار میں
آپ اختیار میں ہیں تو سب اختیار میں

کیوں ناامید آپ کا امیدوار ہو
سب کچھ ہے کیا نہیں نگۂ شرمسار میں

مجھ کو جب اپنی بات کا رہتا نہیں خیال
کیوں بد ظنی نہ آئے دل رازدار میں

اس سے زیادہ لطف کا طالب نہیں ہوں میں
امید بن کے رہ دل امیدوار میں

یا موت آئے گی مجھے یا نیند آئے گی
اور ایک شب گزار تو دوں انتظار میں

اے درد عشق بات تو جب ہے کہ میرے دوست
مرنے کے بعد چین نہ پاؤں مزار میں

نالہ خلاف وعدہ کیا ہائے کیا کیا
سن لے جو وہ تو فرق پڑا اعتبار میں

وہ کیوں بلائیں بزم میں مجھ بد نصیب کو
گھل مل کے بیٹھنا نہیں آتا ہے چار میں

میں نے بھی توبہ توڑ دی اپنی تو کیا ہوا
دنیا کے لوگ کیا نہیں کرتے بہار میں

میرا وقار آپ کا آرام بھی گیا
آخر یہ کیا بلا ہے دل بے قرار میں

اک تازہ واردات ہے ہر ایک دم کے ساتھ
میرے ارادے آ نہیں سکتے شمار میں

سو مہربانیوں کے عوض مسکرا دیا
سرکار نے کمال کیا اختصار میں

ہوگا جب ان کا قہر قیامت ہی آئے گی
زندے رہیں گے گھر میں نہ مردے مزار میں

کہتے ہیں لوگ موت سے بد تر ہے انتظار
میری تمام عمر کٹی انتظار میں

نکلے گا اب کے جو بھی ترا اے مغاں نواز
پھولوں میں رکھ کے دیں گے تجھے ہم بہار میں

ناصح بھی چارہ گر بھی یہ دو دو عذاب کیوں
منکر نکیر آتے ہیں وہ بھی مزار میں

کھائی ہوئی قسم تو خدا کے لئے نہ کھا
اپنی طرف سے فرق نہ ڈال اعتبار میں

زاہد کی طرح اور ہیں مسجد میں سیکڑوں
یہ کس شمار میں ہے وہاں کس قطار میں

عشق اور آپ واہ صفیؔ واہ واہ وا
غم اور ہائے زندگئ مستعار میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse