سیر ایران/دیباچہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

اپنے بزرگوں کے وطن کی سیر کا کانٹا جس ذوق و شوق سے مولانا کے پہلو میں کھٹکتا تھا اکثر تحریروں میں لہو ہو ہو کر ٹپکا ہے مگر وقت کی مجبوری اور واقعات کی مصلحت ہندوستان کا دامن نہ چھوڑنے دیتی تھی۔ اگرچہ علمی و ادبی تحقیقات کے غنچے چٹکیاں لیے جاتے تھے۔ آخر وہ مبارک گھڑی آہی گئی اور مولانا نے بصد اشتیاق و آرزو ایران کے سفر کے لیے کمر کسی۔ انواع و اقسام کی ہزاروں آرزوؤں اور ولولوں کے سِوا کچھ زاد راہ مولانا کے ساتھ نہ تھا۔ اس قدر لمبا سفر اور پھر اُس زمانہ کا سفر کوئی آسان کام نہ تھا۔ مگر اس دشوار پسند طبیعت نے ہمت اور محبت کے بل پر آسان کر دکھایا، گھر اور گھر والوں کو خدا کے سپرد کیا اور خود کراچی سے پار اتر گئے۔

علمِ تاریخ کے متوالے جانتے ہیں کہ جس طرح آج ہر ایک علم و فن ایجاد و اختراع کا منبع ولایتِ انگلینڈ ہے، اِسی طرح ایک زمانہ میں ایران سمجھا جاتا تھا۔ خاص کر ہمارے مشرقی علوم تو اِسی رستے بہہ کر ہم تک پہونچے تھے۔ ایسی حالت میں ہر علم دوست طبیعت کی یہی آرزو ہوتی تھی کہ ایک دفعہ ضرور ان آنکھوں کو ولایتِ ایران کی زیارت سے روشن کرے۔ دوسرے ہزاروں علمی نکتے تھے کہ وقت بے وقت ملکِ ایران سے ہوتے ہوئے ہندوستان میں پہونچتے تھے۔ کچھ بگڑے ہوئے آتے تھے، کچھ یہاں بگڑ جاتے تھے۔ بال کی کھال اتارنے والی طبیعتیں ان کی تحقیق کرنا چاہتی تھیں اور غرض کہ ہزاروں قسم کی آرزوئیں اور خواہشیں تھیں کہ ہندوستان کے مستانوں کو شیراز اور اصفہان میں گلی بہ گلی و کوچہ بکوچہ پھراتی تھیں اور تیوری پر بل نہ آنے دیتی تھیں۔ ایسے اور ان جیسے لاکھوں خیالوں نے مولانا کو ایران کا سفر تہ کرایا تھا اور اس تھوڑے سے عرصے میں وہ ادبی کلیاں چن چن کر ساتھ لائے کہ مارے خوشی کے پھولوں نہ سماتے تھے۔ مگر افسوس جیسا کہ وہ چاہتے تھے، ان کلیوں اور پھولوں سے ایک گلدستہ بھی نہ سجاسکے۔ قسمت نے کوئی بھی آرزو پوری نہ ہونے دی۔

سیاحتِ ایران کے بعد مولانا نے ہندوستان واپس آکر سخندانِ فارس کو ترتیب دیا۔ قندِ پارسی سے اپنے وطن کے بچوں کا منہ میٹھا کیا۔ اگر چہ ان دونوں کتابوں میں جگہ جگہ اور صفحہ صفحہ پر ایران کی شیریں بیانی نے اپنا رس ٹپکایا ہے۔ مگر مولانا کی سب سے بڑی آرزو ایک فارسی لغت کے تیار کرنے کی تھی جو شاید انہوں نے پوری بھی کی ہو۔ بہت ممکن ہے کہ بستوں اور مسودوں کے اُلٹ پُلٹ کرنے سے تیار بھی ہو جائے۔ اگرچہ فارسی زبان اور فارسی علم ادب ہندوستان میں مردہ ہو چکا ہے۔ ظاہراً کوئی امید بھی باقی نہیں کہ پھر زندہ ہو۔ مگر پھر بھی اگر وہ لغت(١) مل گئی اور خوش قسمتی سے چھپ گئی تو مولانا کی معنوی یادگاروں میں سے ایک عجیب و غریب یادگار ہو گی۔

دوسری آرزو سفرنامہ ایران تھا جس کو وہ ترتیب ہی نہ دے سکے۔ حالات اور واقعات پرچوں اور پرزوں پر ہوں گے۔ زمانہ نے اتنی فرصت ہی نہ دی کہ آرام سے بیٹھیں۔ اطمینان کے دامن پر ان لپٹے ہوئے گٹھوں کو کھولیں۔ چھوٹے چھوٹے نوٹوں سے بڑے بڑے واقعات کی یاد کو تازہ کریں اور اس رشکِ ارم ملک کی تصویر مولانا اپنے ہاتھ سے کھینچیں۔

سفر کے تھوڑے ہی عرصے بعد تخیل کے دریا میں طلاطُم آیا۔ واقعات تبدیل ہونے شروع ہوئے۔ ادھر سے طبیعت ہی اچاٹ ہوگئی۔ مہینوں اور برسوں کی عرق ریزیاں کاغذ کے دفتروں میں سمٹ کر بستوں میں سوگئیں اور مولانا کے کان میں کسی نے چپکے سے کہدیا کہ:

ہوش و خرد کو دیکھ لیا درد سر میں ذوق آرام کو بھی دیکھ کہ دیوانہ پن میں ہے

پھر کیا تھا۔ عالم ہی اور ہوگیا۔ دنیا کا رنگ ہی بدل دیا۔ وہ بات ہی بگڑ گئی۔ سفر اور سفر نامہ دونوں کو بھول گئے۔ پھر کسی کی مجال تھی کہ ان کھلے دفتروں کو سمیٹتا۔ ان الجھی زلفوں کو سلجھاتا۔ خدا جانے وہ کیا حسرت خیز دیوانہ پن تھا جس نے پھر ادھر کا رخ ہی نہ کیا۔

آخر زمانہ نے ان ورقوں کو بھی الٹ دیا۔ دن مہینے اور سال گزر گئے۔ مولانا دنیا سے اٹھ گئے۔ وہ شمع جو بیس بائیس سال سے ہوائے وحشت کا دم بھرتی تھی بجھ گئی۔ اس شمع کے پروانے بھی یکے بعد دیگرے رخصت ہوگئے۔ اب بھی چند وجود باقی ہیں جو پرانے واقعات کے نقشے کھینچتے ہیں۔ ان بگڑی ہوئی بزموں کی یاد سے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہیں۔ نئی پود کو سناتے ہیں کہ ہم نے مولانا کو یہاں دیکھا تھا۔ وہاں نہر کے کنارے بیٹھے شعر پڑھ رہے تھے۔ کوئی کہتا ہے میں نے اسی باغ میں مولانا کے قدم لیے تھے۔ انہوں نے ہاتھ اٹھا کر دعائیں دی تھیں۔ کسی کو یہ صدمہ ہے کہ مولانا نے مجھے پہچانا تو تھا مگر بات نہ کی تھی۔ کسی کو قلق ہے کہ مجھے پہچانا ہی نہ تھا۔ مگر یہ باتیں بھی چند روزہ ہیں، کچھ عرصہ بعد یہ ہستیاں بھی نہ رہیں گی۔ یہ تصویریں بھی مٹ جائیں گی۔ پھر کون جانے گا کہ سوائے چند مطبوعہ کتابوں کے آزادؔ نے اپنے ملک کی زبان کے لیے کیا کیا جانفشانیاں کی تھیں۔ آزاد کون تھے۔ کہاں رہتے تھے۔ کس کس جگہ گئے تھے اور زبان اردو پر کس کس طرح جان چھڑکتے رہے تھے۔

ترقی یافتہ قوموں کے بڑے بڑے ادیبوں اور فلاسفروں کے سفرنامے اور سوانح عمریاں ہی ایسی بیش بہا چیزیں سمجھی جاتی ہیں کہ جن کی روشنی گذشتہ اور آئندہ منزلوں پر پر چومک کا کام دیتی ہے اور جو آنے والی نسلوں کے سدھارنے کے لیے بہت کچھ مدد دیتی ہے مگر کس قلم سے لکھوں ۔ دل خون ہوا جاتا ہے کہ ہندوستان کا سب سے بڑا انشا پرداز، اقلیمِ سخن کا تاجدار، قلزم تاریخ کا شناور، نئی نثر و نظم کا موجد ان دونوں چیزوں سے محروم گیا۔

ہمارے بعد کے اردو بولنے والے کیا جانیں گے کہ آزاد نے کس طرح کا سفر کیاتھا اور اس میں ہمارے لیے کیا کچھ کیا تھا۔ میں نے ہر چند تلاش کیا مگر ان کے سفر کا کوئی روزنامچہ یا سفر نامہ ان کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا نہ ملا ۔ فقط ایک پھٹا پرانا رفیق ہند اخبار کا پرچہ ہاتھ آیا ہے جس میں ایک لیکچر سفر ایران کے متعلق ہے۔ اس کے علاوہ چند چھوٹے چھوٹے کاغذوں کا ایک گٹھا سا ملا جس میں نوٹ لکھے ہیں جن کا پڑھنا دشوار اور ترتیب دینا ناممکن تھا پھر بھی جس قدر ممکن ہوسکا موزوں کرکے روزنامچہ کے نام سے چھپوا دیا ہے۔

اس طول و طویل سفر سے مولانا جولائی ١٨٨٦ء؁ میں واپس تشریف لائے تھے۔ اس وقت کی تعلیم یافتہ جماعت میں میں جو خوشی مولانا کے واپس بخیروعافیت تشریف لانے سے ہوئی ہوگی اس کا اندازہ وہی خوب لگا سکتے ہیں جن کے سینوں میں دل ہو اور دل میں کسی کے لیے محبت ہو اور پھر وہ کسی کے منتظر ہوں۔ خیر غرض کہ لاہور والوں نے بصد اشتیاق ٢٤ جولائی کو انجمن ہال میں جلسہ منعقد کیا جس کا اعلان کچھ دن پیشتر ہی کر دیا گیا تھا۔ اس جلسے اور لیکچر کا چرچا کئی دن سے لاہور میں ہو رہا تھا۔ اکثر احباب امرتسر واطراف لاہور سے لیکچر سننے کے لیے تشریف لائے تھے۔ تعلیم یافتہ اصحاب اور تمام طالب علم نور مل اسکول وغیرہ کے جو امتحانوں سے فارغ ہو چکے تھے اسی کے انتظار میں ٹھہرےرہے۔ جلسہ کے موقع پر حاضرین وشائقین کی تعداد حد ہجوم سے بھی بڑھ گئی تھی۔ باوجود اس کے جس وقت مولانا نے لیکچر دینا شروع کیا عجیب چپ چاپ اور سناٹے کا عالم تھا۔ ہر شخص ہمہ تن گوش بنا بیٹھا تھا۔ مختلف اخبارات کے ایڈیٹر اور نامہ نگار ان برستے پھولوں کو کاغذ کے دامن پر سمیٹ رہے تھے۔ وہ بڑے خوش قسمت وجود تھے جنہوں نے تاجدار اردو کو خود چہکتےاور مہکتے دیکھا ہوگا اور ولایت ایران کی تصویریں اس مصور فطرت کی زبان سے کھینچتی ہوئی دیکھی ہو گی اور لاہور میں بیٹھ کر ایران کی سیر کے لطف اٹھائے ہوں گے۔

یہ لیکچر اگرچہ نہایت ہی مختصر دریا میں سے قطرہ کی مثال ہے مگر اس رشکِ ملٹن و شکسپیئر کی زبان سے نکلے ہوئے جواہر ریزے، دل میں اتر جانے والے چھوٹے چھوٹے جملے ایسے نہیں کہ ان کو بھلا دیا جائے۔ دل نہیں چاہتا کہ ہم اور ہم سے آئندہ آنے والی نسلیں اس مہک سے محروم رہیں۔ اگرچہ یہ پورا سفرنامہ تو نہیں ہے لیکن کیا ہوا۔ اسی چمن کا ایک پھول ہے۔ انہیں پھولوں کی ایک تھوڑی سی خوشبو ہے۔ غور سے دیکھو تو اس میں بھی وہی گوہرِ غلطاں کی چمک ہے۔ اب اسی کو غنیمت جان کر چھپوائے دیتا ہوں تاکہ کچھ تو مولانا کے سفر کی یاد باقی رہ جائے۔ خواہ تھوڑی ہی کیوں نہ ہو۔


دعا کا محتاج

طاہرؔ نبیرہ آزاد