سیر اس سبزۂ عارض کی ہے دشوار بہت

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سیر اس سبزۂ عارض کی ہے دشوار بہت
by امداد علی بحر

سیر اس سبزۂ عارض کی ہے دشوار بہت
اے دل آبلہ پا راہ میں ہیں خار بہت

لو نہ لو دل مجھے بھاتی نہیں تکرار بہت
مفت بکتا ہے مرا مال خریدار بہت

خوش رہو یار اگر ہم سے ہو بیزار بہت
دل اگر اپنا سلامت ہے تو دل دار بہت

غم نہیں گو ہم اکیلے ہیں اور اغیار بہت
حق اگر اپنی طرف ہے تو طرف دار بہت

پاؤں پھیلاؤ نہ اب تو مرے پاس آنے میں
ایڑیاں تم نے رگڑوائی ہیں اے یار بہت

کیا کروں گا میں بھلا باغ اجارے لے کر
آشیانوں کو ہیں اک مشت خس و خار بہت

طعن رندوں پہ نہ کر شیخ خدا لگتی بول
اس کے الطاف بہت ہیں کہ گنہ گار بہت

کیا زمانے میں محبت کا مرض پھیلا ہے
اچھے دو چار نظر آتے ہیں بیمار بہت

لمبے لمبے ترے بالوں کا مجھے سودا ہے
طول کھینچے گا مری جان یہ آزار بہت

تلخیٔ مرگ کا ہرگز مجھے اندیشہ نہیں
بیٹھی منہ پر ہے مرے یار کی تلوار بہت

بس تمہاری یہی خو سخت بری لگتی ہے
تھوڑی تقصیر پہ ہو جاتے ہو بیزار بہت

گھر میں اس بت کے رسائی نہ ہوئی پر نہ ہوئی
بحرؔ نے پتلی بھی گاڑی پس دیوار بہت

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse