سیاہی جیسے گر جائے دم تحریر کاغذ پر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سیاہی جیسے گر جائے دم تحریر کاغذ پر
by مرزا غالب

سیاہی جیسے گر جائے دم تحریر کاغذ پر
مری قسمت میں یوں تصویر ہے شب ہاۓ ہجراں کی

کہوں کیا گرم جوشی مے کشی میں شعلہ رویاں کی
کہ شمع خانۂ دل آتش مے سے فروزاں کی

ہمیشہ مجھ کو طفلی میں بھی مشق تیرہ روزی تھی
سیاہی ہے مرے ایام میں لوح دبستاں کی

دریغ! آہ سحر گہ کار باد صبح کرتی ہے
کہ ہوتی ہے زیادہ سرد مہری شمع رویاں کی

مجھے اپنے جنوں کی بے تکلف پردہ داری تھی
ولیکن کیا کروں آوے جو رسوائی گریباں کی

ہنر پیدا کیا ہے میں نے حیرت آزمائی میں
کہ جوہر آئینہ کا ہر پلک ہے چشم حیراں کی

خدایا کس قدر اہل نظر نے خاک چھانی ہے
کہ ہیں صد رخنہ جوں غربال دیواریں گلستاں کی

ہوا شرم تہی دستی سے سے وہ بھی سرنگوں آخر
بس اے زخم جگر اب دیکھ لے شورش نمکداں کی

بیاد گرمیٔ صحبت بہ رنگ شعلہ دہکے ہے
چھپاؤں کیونکہ غالبؔ سوزشیں داغ نمایاں کی

جنوں تہمت کش تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی
نمک پاش خراش دل ہے لذت زندگانی کی

کشاکش‌ ہاۓ ہستی سے کرے کیا سعی آزادی
ہوئی زنجیر موج آب کو فرصت روانی کی

نہ کھینچ اے سعیٔ دست نارسا زلف تمنا کو
پریشاں تر ہے موئے خامہ سے تدبیر مانی کی

کہاں ہم بھی رگ و پے رکھتے ہیں انصاف بہتر ہے
نہ کھینچے طاقت خمیازہ تہمت ناتوانی کی

تکلف برطرف فرہاد اور اتنی سبکدستی
خیال آساں تھا لیکن خواب خسرو نے گرانی کی

پس از مردن بھی دیوانہ زیارت گاہ طفلاں ہے
شرار سنگ نے تربت پہ میری گل فشانی کی

اسدؔ کو بوریے میں دھر کے پھونکا موج ہستی نے
فقیری میں بھی باقی ہے شرارت نوجوانی کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse