سہے غم پئے رفتگاں کیسے کیسے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سہے غم پئے رفتگاں کیسے کیسے
by واجد علی شاہ

سہے غم پئے رفتگاں کیسے کیسے
مرے کھو گئے کارواں کیسے کیسے

وہ چتون وہ ابرو وہ قد یاد سب ہے
سناؤں میں گزرے بیاں کیسے کیسے

مرے داغ سوزاں کا مضموں نہ سوچو
جلے کہہ کے آتش‌ زباں کیسے کیسے

رہا عشق سے نام مجنوں کا ورنہ
تہ خاک ہیں بے نشاں کیسے کیسے

شب وصل میں مہ کو عریاں کریں گے
عیاں ہوں گے راز نہاں کیسے کیسے

کمر یار کی ناتوانی میں ڈھونڈی
توہم ہوئے درمیاں کیسے کیسے

کلیجے میں اخترؔ پھپھولے پڑے ہیں
مرے اٹھ گئے قدرداں کیسے کیسے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.