سہے ستم پہ ستم پھر بھی مدعا نہ ملا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سہے ستم پہ ستم پھر بھی مدعا نہ ملا  (1930) 
by سید واجد علی فرخ بنارسی

سہے ستم پہ ستم پھر بھی مدعا نہ ملا
ہمیں تو درد میں بھی درد کا مزا نہ ملا

فریب شوق نے ناکام جستجو رکھا
تلاش جس کی تھی اس کا کہیں پتا نہ ملا

وہ خاک جور کی لذت سے آشنا ہوتے
جنہیں کہ حوصلہ صبر آزما نہ ملا

ازل سے گرم رو راہ جستجو ہوں میں
ہنوز منزل مقصود کا پتا نہ ملا

طلسم دہر میں اک وہم ہے وجود بشر
ہمیں تلاش سے اپنا بھی کچھ پتا نہ ملا

ملا کے خاک میں ہیں بے نیازیاں اب تک
تمہاری طرح کوئی دیر آشنا نہ ملا

بناتے کعبۂ مقصود جس کو ہم فرخؔ
رہ طلب میں کوئی ایسا نقش پا نہ ملا

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse