سہیں کب تک جفائیں بے وفائی دیکھنے والے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سہیں کب تک جفائیں بے وفائی دیکھنے والے
by مضطر خیرآبادی

سہیں کب تک جفائیں بے وفائی دیکھنے والے
کہاں تک جان پر کھیلیں جدائی دیکھنے والے

ترے بیمار غم کی اب تو نبضیں بھی نہیں ملتیں
کف افسوس ملتے ہیں کلائی دیکھنے والے

خدا سے کیوں نہ مانگیں کیوں کریں منت امیروں کی
یہ کیا دیں گے کسی کو آنہ پائی دیکھنے والے

بتوں کی چاہ بنتی ہے سبب عشق الٰہی کا
خدا کو دیکھ لیتے ہیں خدائی دیکھنے والے

مہینوں بھائی بندوں نے مرا ماتم کیا مضطرؔ
مہینوں روئے خالی چارپائی دیکھنے والے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse