سہارا موجوں کا لے لے کے بڑھ رہا ہوں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سہارا موجوں کا لے لے کے بڑھ رہا ہوں میں
by بیدم وارثی

سہارا موجوں کا لے لے کے بڑھ رہا ہوں میں
سفینہ جس کا ہے طوفاں وہ ناخدا ہوں میں

خود اپنے جلوۂ ہستی کا مبتلا ہوں میں
نہ مدعی ہوں کسی کا نہ مدعا ہوں میں

کچھ آگے عالم ہستی سے گونجتا ہوں میں
کہ دل سے ٹوٹے ہوئے ساز کی صدا ہوں میں

پڑا ہوا ہوں جہاں جس طرح پڑا ہوں میں
جو تیرے در سے نہ اٹھے وہ نقش پا ہوں میں

جہان عشق میں گو پیکر وفا ہوں میں
تری نگاہ میں جب کچھ نہیں تو کیا ہوں میں

تجلیات کی تصویر کھینچ کر دل میں
تصورات کی دنیا بسا رہا ہوں میں

جنون عشق کی نیرنگیاں ارے توبہ
کبھی خدا ہوں کبھی بندۂ خدا ہوں میں

بدلتی رہتی ہے دنیا مرے خیالوں کی
کبھی ملا ہوں کبھی یار سے جدا ہوں میں

حیات و موت کے جلوے ہیں میری ہستی میں
تغیرات دوعالم کا آئنا ہوں میں

تری عطا کے تصدق ترے کرم کے نثار
کہ اب تو اپنی نظر میں بھی دوسرا ہوں میں

بقا کی فکر نہ اندیشۂ فنا مجھ کو
تعینات کی حد سے گزر گیا ہوں میں

مجھی کو دیکھ لیں اب تیرے دیکھنے والے
تو آئنہ ہے مرا تیرا آئینا ہوں میں

میں مٹ گیا ہوں تو پھر کس کا نام ہے بیدمؔ
وہ مل گئے ہیں تو پھر کس کو ڈھونڈھتا ہوں میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse