Jump to content

سہارا

From Wikisource
سہارا
by میراجی
331416سہارامیراجی

اوس کی بوندوں میں نمکینی نہیں
پھول گر چاہے کہ اپنی رات کے انجام کو
ایک ہی لمحے میں یکسر جان لے
اس کو لازم ہے ہوا کے سرد جھونکے سے کہے
جاؤ اس کے آنسوؤں کو چوم لو
آنسوؤں کو چوم کر محسوس یہ ہونے لگا
ایک آنسو ایک بوند
ایک پل میں ایک بحر نیلگوں
بن کے چھا جاتا ہے تنہا ناؤ پر
کیا ہوا گر اوس کی بوندوں میں نمکینی نہیں
اوس کی بوندوں میں نمکینی اگر ہوتی تو کیا
پھول اس میں تیرتے ہی تیرتے
اپنی منزل تک پہنچ سکتا نہ تھا اک ناؤ بن سکتا نہ تھا
پھول کیا ہے تو کہ میں
پھول میں ہوں تو نہیں
تو تو بحر نیلگوں میں ایک تنہا ناؤ ہے
بہتی جاتی ہے ذرا رکتی نہیں
تجھ کو یہ معلوم کب ہے اوس کی بوندوں میں نمکینی نہیں
تو فقط باتوں کے بل پر اپنی راتوں کی رسیلی چھاؤں میں
یہ سمجھتی ہے کہ ہر لمحہ اچانک پھیل کر
شش جہت پر دل دھڑکتے ہی میں یوں چھانے لگا
جیسے اک ٹھہراؤ فرقت کی اندھیری رات میں
درد کے ہم دوش لذت کو بھی اکساتا رہے
لے پیالہ تھام لے
اس میں باقی ہے ابھی زہر غم
جس کو پی کر میں بھی اپنی زندگی سے بھاگتا پھرتا رہا
گفتگو سے فائدہ کچھ بھی نہیں لیکن مجھے
ہر اشارا دام ہے الفاظ کا
جس میں طائر پھڑ پھڑاتے چیختے
چیختے ہی چیختے خاموش ہو جاتے ہوئے
جان لیتے ہیں کہ اب وہ رات ہی درماں بنے گی درد کے انبار کا
جس کے بکھرے دامن صد چاک میں
پھول کی بھیگی ہوئی پتی پہ بوندیں اوس کی
ساتھ لاتی ہیں گداز روح کی ہلکی ملاحت کو جسے
چکھ کے کہتی ہے زباں کیوں اب کہو
اوس کی بوندوں میں نمکینی نہیں
دیکھ دور
ایک تنہا ناؤ بحر نیلگوں پہ رفتہ رفتہ بڑھتے بڑھتے آ رہی ہے پاس دیکھ
دور کی چیزیں بھی یوں
باتوں باتوں میں قریب آ جائیں گی کیا تھی خبر
دیکھ تو
رشتۂ عہد تخیل بند تھا
کھلنے لگا
رفتہ رفتہ اک نئی صورت نظر آنے لگی
اک نئی صورت مگر کچھ نقش تو مانوس ہیں
اور ہر لمحے سے ہر آنسو سے قصر نیلگوں استادہ ہے
دور اس کی چھت میں دو فانوس ہیں


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.