سکۂ داغ جنوں ملتے جو دولت مانگتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سکۂ داغ جنوں ملتے جو دولت مانگتا
by آغا اکبرآبادی

سکۂ داغ جنوں ملتے جو دولت مانگتا
تنگ کرتی مفلسی گر میں فراغت مانگتا

رنج سے فرصت نہ ملتی میں جو راحت مانگتا
بوجھ ہوتا سر پہ گر قاروں کی دولت مانگتا

گر مجھے ہوتی خبر میرا مسیحا آئے گا
اے اجل اک دم کی میں بھی تجھ سے مہلت مانگتا

خضر کی سی زندگی ہوتی جو مجھ ناکام کی
میں دعائے وصل جاناں تا قیامت مانگتا

اشک کے دریا نے رکھ لی آبرو اے چشم تر
مرتے دم دو گز زمین کیا بہر تربت مانگتا

کس کی آمد آمد اپنے کلبۂ احزاں میں ہے
پیشوائی کو ہے دل پہلو سے رخصت مانگتا

در گزرتا جان تک کرتا زمیں اوس سے عزیز
مجھ سے دربان در جاناں جو رشوت مانگتا

نزع تک دیدار کی حسرت رہی مشتاق کو
اے مسیحا مر گیا بیمار شربت مانگتا

در بدر پھرنے نے میری قدر کھوئی اے فلک
ان کے دل میں ہے جگہ ملتی جو خلوت مانگتا

منتیں کر کے چھڑاتا بلبلوں کو دام سے
میں زر گل دیتا اگر صیاد قیمت مانگتا

آدمیت سے ہیں دور ان زاہدوں کے قول و فعل
حق موروثی تھا میرا کیوں میں جنت مانگتا

جان دی ناحق کو مکارہ کے دم میں آن کر
کوہ کن شیریں سے محنت کی جو اجرت مانگتا

قصد کرتا گر بلندی کا تو پستی دیکھتا
کند ہو جاتی طبیعت گر میں جودت مانگتا

زلف کے جنجال میں پھنسنے کی خود کرتا دعا
میں سڑی تھا جو خدا سے اپنی شامت مانگتا

قائل اپنی گفتگو سے خاص کا ہوتا کلیم
سعدیٔ شیراز بھی مجھ سے فصاحت مانگتا

یار ہوتا باغ ہوتا ایسے گر ہوتے نصیب
مے کشی کی محتسب سے میں اجازت مانگتا

دشت وحشت خیز میں عریاں ہے آغاؔ آپ ہی
قاصد جاناں کو کیا دیتا جو خلعت مانگتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse