سکھایا عقل نے برسوں ہمیں علم و ہنر سب کچھ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سکھایا عقل نے برسوں ہمیں علم و ہنر سب کچھ  (1933) 
by نبی بخش نایاب

سکھایا عقل نے برسوں ہمیں علم و ہنر سب کچھ
جو سوچا تو جنوں ہی تھا جنوں سے بیشتر سب کچھ

اگر اک تو نہیں تو میرے قبضے میں نہیں کچھ بھی
اگر تو ہے تو ہے پکھراج اور لعل اور گہر سب کچھ

نظر آیا ہمیں اصلی ٹھکانا مدعا اصلی
جب آنکھیں بند کر لیں نیک اور بد دیکھ کر سب کچھ

مرا سر پھوڑنا رونا تڑپنا غش پہ غش آنا
بتا دینا زبانی بھی انہیں اے نامہ بر سب کچھ

محبت ہے تو پھر صبر و سکوں ہوش و خرد کیا ہیں
لٹائے جا تو اس میداں میں اے صاحب نظر سب کچھ

ہوا جو کچھ تھا میرے پاس نذر خانہ ویرانی
دل محکم دماغ اعلیٰ تر سنگیں جگر سب کچھ

متاع رنج و غم گنجینہ ہائے حسرت و حرماں
محبت میں بھلا کیا کچھ نہیں ہے میرے گھر سب کچھ

متاع حسن سے اک ذرہ وہ نایابؔ اگر دے دے
اٹھا دوں شش جہت نہ آسماں شمس و قمر سب کچھ

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse