سچ ہے تیری ہی آرزو مجھ کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سچ ہے تیری ہی آرزو مجھ کو
by داغ دہلوی

سچ ہے تیری ہی آرزو مجھ کو
کہیں جینے دے یوں ہی تو مجھ کو

بندہ نو خرید ہوں ہر دم
رکھیے آنکھوں کے رو بہ رو مجھ کو

کل تک اس کی تلاش تھی لیکن
آج ہے اپنی جستجو مجھ کو

پہلے وہ تھا کہ تم نہ تھے آگاہ
اب وہ ہوں سن لو کو بہ کو مجھ کو

واں شکایت پہ وہ حکایت ہے
کہ نہیں جائے گفتگو مجھ کو

اے حیات دو روزہ لے آئی
کن گرفتاریوں میں تو مجھ کو

داغؔ یکسو ہو خوش نہیں آتی
ناامیدانہ آرزو مجھ کو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse