سو کی اک بات میں کہی تو ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سو کی اک بات میں کہی تو ہے
by میر حسن دہلوی

سو کی اک بات میں کہی تو ہے
یعنی جو کچھ کہ ہے وہی تو ہے

دید وا دیدہ کو غنیمت جان
حاصل زندگی یہی تو ہے

تیرے دیدار کے لئے یہ دیکھ
جان آنکھوں میں آ رہی تو ہے

ڈھ گیا ہو نہ خانۂ دل آج
سیل خوں چشم سے بہی تو ہے

واں بھی راحت ہو یا نہ ہو دیکھیں
اک مصیبت یہاں سہی تو ہے

مجھ سا عریاں کہاں ہے گل اس کے
رنگ کے بر میں اک یہی تو ہے

تیرے احوال سے حسنؔ بارے
اس کو تھوڑی سی آگہی تو ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse