سو حسرتیں تو آئیں گیا ایک دل گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سو حسرتیں تو آئیں گیا ایک دل گیا
by داغ دہلوی

سو حسرتیں تو آئیں گیا ایک دل گیا
ملنا تھا جو مجھے مری قسمت کا مل گیا

اس نے لیا جو آئنے میں بوسہ اپنا آپ
اللہ رے نازکی لب گلفام چھل گیا

اللہ رے جامہ زیب تری جامہ زیبیاں
پہنا جو تو نے رنگ وہی رنگ کھل گیا

جنت اسی کا نام اگر ہے تو بس سلام
محفل میں تیری جو کوئی آیا خجل گیا

میں نے تو اپنے واسطے کی تھی دعائے وصل
الٹا اثر ہوا وہ رقیبوں سے مل گیا

ہستی میں ہیں عدم کے مزے عاشقوں کو داغؔ
قالب میں جان آتے ہی پہلو سے دل گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse