سوچ میں تیرے سنا رات جو کھٹکا پٹکا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سوچ میں تیرے سنا رات جو کھٹکا پٹکا
by مرزا اظفری

سوچ میں تیرے سنا رات جو کھٹکا پٹکا
سر کو تکیے سے اٹھا پٹی پہ دے دے پٹکا

تو نے گر کنگھی جو کاکل کو پکڑ کر جھٹکا
دل پڑا پھرتا ہے سر مارتا بھولا بھٹکا

لخت دل آ سر مژگاں پہ لٹکتے ہیں پڑے
تیری الفت نے بھلا سانگ دکھایا نٹ کا

جب نہ تب بوسے پہ ہٹتے ہو کہ دوں گا نہ کبھی
مان کر یہ نہ مری جان پھر ایسی ہٹ کا

کیوں تری چال لٹک دیکھ کے دل لٹکے ہیں
کچھ تو ہم کو بھی بتا کس سے یہ سیکھا لٹکا

نٹ کھٹی دیکھ تری میں تو اچنبھے میں رہا
دل جھپٹ ہاتھ سے جھٹ راگ سنایا کھٹکا

گھر بسے بول بھی کچھ کیا ہے خرابی ٹھانی
کب تلک ہم سے پھرے گا یوں ہی پھٹکا پھٹکا

دل گم گشتہ کی ہر اک سے میں کرتا ہوں تلاش
چور جو تھا وہی آنکھوں کو چرا کر سٹکا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse