سوز شمع ہجر سے شب جل گئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سوز شمع ہجر سے شب جل گئے
by مرزا اظفری

سوز شمع ہجر سے شب جل گئے
ڈھلتے ڈھلتے آنسو ہم خود ڈھل گئے

کل کا وعدہ کیا رقیبوں سے کیا
کرتے آج آپس میں کچھ کل کل گئے

وہ اٹھا کر یک قدم آیا نہ گاہ
ہم قدم ساں اس کے سر کے بل گئے

کب چھپی چھب تختی اور وہ چال ڈھال
گو کہ منہ پر کر کے تم اوجھل گئے

شرط تھی مانوں گا جو مانگو گے تم
نام بوسہ سنتے ہی کچھ ٹل گئے

سادہ رو تو دل کے اجلے چور ہیں
ہاتھ لے یہ مال کرتے ٹل گئے

غنچۂ دل اظفریؔ تقریب سیر
گل رخاں پامال کر مل دل گئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse