سوز دل کا ذکر اپنے منہ پہ جب لاتے ہیں ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سوز دل کا ذکر اپنے منہ پہ جب لاتے ہیں ہم
by میر حسن دہلوی

سوز دل کا ذکر اپنے منہ پہ جب لاتے ہیں ہم
شمع ساں اپنی زباں سے آپ جل جاتے ہیں ہم

دم بدم اس شوخ کے آزردہ ہو جانے سے آہ
جب نہیں کچھ اپنا بس چلتا تو گھبراتے ہیں ہم

بیٹھنے کو تو نہیں آئے ہیں یاں اے باغباں
کیوں خفا ہوتا ہے اتنا ہم سے تو جاتے ہیں ہم

دل سے ہم چھٹ جائیں یا دل ہم سے چھٹ جاوے کہیں
اس کے الجھیڑے سے اب تو سخت اکتاتے ہیں ہم

دل خدا جانے کدھر گم ہو گیا اے دوستاں
ڈھونڈھتے پھرتے ہیں کب سے اور نہیں پاتے ہیں ہم

دونوں دیوانے ہیں کیا سمجھیں گے آپس میں عبث
ہم کو سمجھاتا ہے دل اور دل کو سمجھاتے ہیں ہم

یاد میں اس گلبدن کی آج کل تو اے حسنؔ
باغ میں پھر پھر کے اپنے دل کو بہلاتے ہیں ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse