سودا ہے جو دل دے کے خریدار سے الجھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سودا ہے جو دل دے کے خریدار سے الجھے
by داغ دہلوی

سودا ہے جو دل دے کے خریدار سے الجھے
سلجھے ہوئے ہم سے نہ کبھی یار سے الجھے

ہونے نہ دیا رشک نے اظہار تمنا
ہر بات میں ہم اپنی ہی گفتار سے الجھے

الجھاؤ سے الجھاؤ ہیں اس عشق میں یا رب
دلدار سے اٹکے تھے کہ اغیار سے الجھے

کیا سیر ہو شانے سے لڑے گر دل صد چاک
ایک ایک گرفتار گرفتار سے الجھے

اٹکے تو کسی چشم فسوں ساز سے اٹکے
الجھے تو کسی طرۂ طرار سے الجھے

چوری سے بھی پہنچے نہ ترے گھر میں کبھی ہم
برسوں یوں ہی خار سر دیوار سے الجھے

کھلتے نہیں تم داغؔ الجھتی ہے طبیعت
اچھے کسی عیار سے مکار سے الجھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse