سودا تھا بلائے جوش پر رات

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سودا تھا بلائے جوش پر رات
by مومن خان مومن

سودا تھا بلائے جوش پر رات
بستر پر بچھائے نشتر رات

بگڑے تھے یہاں وہ آن کر رات
بے طور بنی تھی جان پر رات

ہم تا سحر آپ میں نہیں تھے
کیا جانے رہے وہ کس کے گھر رات

افسانہ سمجھ کے سو گئے وہ
کام آئی فغان بے اثر رات

آئینے میں ہو نہ موم جادو
سوتے نہیں اب وہ تا سحر رات

تارے آنکھیں جھپک رہے تھے
تھا بام پہ کون جلوہ گر رات

اندھیرا پڑا زمانے میں ہائے
نے دن کو ہے مہر نے قمر رات

اس لیل و نہار غم نے مارا
ہے روز سے سیاہ تر رات

کیا پوچھو ہو منکر و نکیر آہ
بگڑے جو وہ طعن غیر پر رات

یہ بات بڑھی کہ مر گئے ہم
موت آئی تھی قصہ مختصر رات

اس گھر میں ہے عیش خلد مومنؔ
کیا جانے کہاں ہے دن کدھر رات

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse