سودائے سجدہ شام و سحر میرے سر میں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سودائے سجدہ شام و سحر میرے سر میں ہے
by رنجور عظیم آبادی

سودائے سجدہ شام و سحر میرے سر میں ہے
اے بت کشش کچھ ایسی ترے سنگ در میں ہے

میں کب ہوں یہ مرا تن بے جاں حضر میں ہے
روح روان قالب تن تو سفر میں ہے

یہ ایک اثر تو ادویۂ چارہ گر میں ہے
شدت اب اور بھی مرے درد جگر میں ہے

سودائے عشق زلف سیہ جس کے سر میں ہے
کب مطلق امتیاز اسے نفع و ضرر میں ہے

کیا آئے گا کسی بت شیریں دہن پہ دل
کیوں میٹھا میٹھا درد ہمارے جگر میں ہے

چھیڑا مجھے کہ نوح کا طوفاں بپا ہوا
اک بحر اشک بند مری چشم تر میں ہے

پہنچا کسی کو صدمہ کہ ہم لوٹنے لگے
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

نوک مژہ کا رہنے لگا دل میں پھر خیال
شدت کی ٹیس پھر مرے زخم جگر میں ہے

سودائے زلف یار میں ہے درد سر ضرور
اک خاص لطف بھی مگر اس درد سر میں ہے

میرا یہ نخل دل بھی ہے آزاد مثل سرو
گل اس شجر میں ہے نہ ثمر اس شجر میں ہے

چاہے تو لا مکاں کی بھی لے آئے یہ خبر
یہ زور طائر دل بے بال و پر میں ہے

دشنام سے بھی یار کی آتی ہے بوئے لطف
کچھ شک نہیں کہ خیر نہاں اس کے شر میں ہے

کچھ شک نہیں کہ قرب قیامت کی ہے دلیل
یہ فتنہ و فساد کہ اب بحر و بر میں ہے

ہو اس سے میرے دیدۂ تر کا مقابلہ
رنجورؔ اس کی تاب کہاں ابر تر میں ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse