Jump to content

سوالی

From Wikisource
سوالی
by یوسف ظفر
330919سوالییوسف ظفر

گزر رہے ہیں برابر تباہیوں کے جلوس
یہ زندگی کے مسافر کہاں چلے جائیں
یہ اشتہار غموں کے الم کی تصویریں
یہ زندگی ہے نہیں گرد زندگی بھی نہیں
جواں امیدیں فضائے حیات سے مایوس
تنور سینہ کا ایندھن ہیں وہ تمنائیں
جلی حروف میں یہ حادثوں کی تحریریں
کہ جن سے دل کے اندھیرے میں کچھ کمی بھی نہیں
یہ آدمی ہیں نہیں بے بسی کی تقریریں
بپا ہے حشر مگر آنکھ دیکھتی بھی نہیں

گزر رہے تھے وہ ہستی کے مجرمان ازل
قدم بڑھائے ہوئے میں کہاں چلا آیا
جنہیں بہشت کی راحت بھی سازگار نہ تھی
سلگتی پانی میں سورج کی لاش وہ ڈوبی
وہ زندگی کے مسافر وہ ہمرہان اجل
فضا میں پھیل گیا تیرگی کا سرمایہ
گزر گئے کہ انہیں موت ناگوار نہ تھی
فلک پہ جاگی ستاروں کی شان محبوبی
وہ رہ گزار مرے دل کی رہ گزار نہ تھی
ابل پڑے مری آنکھوں سے غم کے آنسو بھی

سکوت شب ہے کمال سکون ہے پیدا
یہ چاہتا ہوں یونہی بے سبب چلا جاؤں
سکون شب سے یہ دل میں خیال آتا ہے
وہ زندگی ہے کہاں جس کو ساتھ لے جاؤں
وہ زندگی ہے کہاں جس کو ساتھ لے جاؤں


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.