سوئے دیار خندہ زن وہ یار جانی پھر گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سوئے دیار خندہ زن وہ یار جانی پھر گیا
by تعشق لکھنوی

سوئے دریا خندہ زن وہ یار جانی پھر گیا
موتیوں کی آبرو پر آج پانی پھر گیا

سوئیاں سی کچھ دل وحشی میں پھر چبھنے لگیں
ٹھیک ہونے کو لباس ارغوانی پھر گیا

ہتھکڑی بھاری ہے میرے ہاتھ کی آج اے جنوں
دست جاناں کا کہیں چھلا نشانی پھر گیا

زور پیدا کر کہ پہنچے جیب تک دست جنوں
اب تو موسم اے وفور ناتوانی پھر گیا

سرفروشان محبت سے نہ ہوگی آنکھ چار
منہ جو اس کی تیغ کا اے سخت جانی پھر گیا

کہتے ہو ہم آج ملک حسن کے ہیں بادشاہ
کیا ہما بالائے سر اے یار جانی پھر گیا

کیوں کبوتر کے عوض ہدہد نہ لایا خط شوق
اس خطا پر مجھ سے وہ بلقیس ثانی پھر گیا

بوسہ کیسا اک لب شیریں سے گالی بھی نہ دی
آج پھر امیدوار مہربانی پھر گیا

اے ضعیفی سایہ سر پر سے گیا دھوپ آ گئی
فصل بدلی آفتاب زندگانی پھر گیا

گر پڑے آنسو عروج ماہ کامل دیکھ کر
مری نظروں میں ترا عہد جوانی پھر گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse