سن کے میرے عشق کی روداد کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سن کے میرے عشق کی روداد کو
by حفیظ جونپوری

سن کے میرے عشق کی روداد کو
لوگ بھولے قیس کو فرہاد کو

اے نگاہ یاس ہو تیرا برا
تو نے تڑپا ہی دیا جلاد کو

بعد میرے اٹھ گئی قدر ستم
اب ترستے ہیں حسیں بیداد کو

اک ذرا جھوٹی تسلی ہی سہی
کچھ تو سمجھا دو دل ناشاد کو

ہائے یہ درد جگر کس سے کہوں
کون سنتا ہے مری فریاد کو

جائیں گے دنیا سے سب کچھ چھوڑ کر
ہاں مگر لے کر کسی کی یاد کو

اب مجھے مانیں نہ مانیں اے حفیظؔ
مانتے ہیں سب مرے استاد کو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse