سن کے فرقت چپ ہوا ایسا کہ مردا ہو گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سن کے فرقت چپ ہوا ایسا کہ مردا ہو گیا
by میر کلو عرش

سن کے فرقت چپ ہوا ایسا کہ مردا ہو گیا
پوچھتا ہے یار رو رو کر تجھے کیا ہو گیا

دیکھ کر چشم سیاہ ماہ رو وحشت ہوئی
چاندنی میں اس ہرن کا رنگ کالا ہو گیا

کر دیا ابرو نے دو ٹکڑے برنگ ذوالفقار
ایک ہی تلوار میں ساری کا آدھا ہو گیا

کیا دیا بوسہ لب شیریں کا ہو کر ترش رو
منہ ہوا میٹھا تو کیا دل اپنا کھٹا ہو گیا

منہ جو اس یوسف نے پھیرا ہو گئے بیکار سب
دیدۂ یعقوب چاہ آئنہ اندھا ہو گیا

دل جو تڑپا داغ سے روشن جہان دل ہوا
برق جب چمکی اندھیرے میں اجالا ہو گیا

عرشؔ اس کی سرد مہری تا دم آخر رہی
دل ہوا ٹھنڈا نہ سارا جسم ٹھنڈا ہو گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse