سن فصل گل خوشی ہو گلشن میں آئیاں ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سن فصل گل خوشی ہو گلشن میں آئیاں ہیں
by تاباں عبد الحی

سن فصل گل خوشی ہو گلشن میں آئیاں ہیں
کیا بلبلوں نے دیکھو دھومیں مچائیاں ہیں

بیمار ہو زمیں سے اٹھتے نہیں عصا بن
نرگس کو تم نے شاید آنکھیں دکھائیاں ہیں

دیکھ اس کو آئنہ بھی حیران ہو گیا ہے
چہرے پہ جان تیرے ایسی صفائیاں ہیں

خورشید اس کو کہئے تو جان ہے وہ پیلا
گر مہ کہوں ترا منہ تو اس پہ جھائیاں ہیں

یوں گرم یار ہونا پھر بات بھی نہ کہنا
کیا بے مروتی ہے کیا بے وفائیاں ہیں

جھمکی دکھا جھجھک کر دل لے کے بھاگ جانا
کیا اچپلائیاں ہیں کیا چنچلائیاں ہیں

قسمت میں کیا ہے دیکھیں جیتے بچیں کہ مر جائیں
قاتل سے اب تو ہم نے آنکھیں لڑائیاں ہیں

دل عاشقوں کا لے کر پھر یار نہیں یہ دلبر
ان بے مروتوں کی کیا آشنائیاں ہیں

پھر مہرباں ہوا ہے تاباںؔ مرا ستم گر
باتیں تری کسی نے شاید سنائیاں ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse