سن رکھ او خاک میں عاشق کو ملانے والے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سن رکھ او خاک میں عاشق کو ملانے والے
by عبدالرحمان احسان دہلوی

سن رکھ او خاک میں عاشق کو ملانے والے
عرش اعظم کے یہ نالے ہیں بلانے والے

یہ صدا سنتے ہیں اس کوچہ کے جانے والے
جان کر جان نہ کھو کون ہے آنے والے

چین تجھ کو بھی نہ ہو مجھ کو ستانے والے
تو بھی ٹھنڈا نہ رہے جی کے جلانے والے

کب ہیں اس دل سے بتاں ہاتھ اٹھانے والے
یہ وہ کافر ہیں کہ مسجد کے ہیں ڈھانے والے

جنگ ہی گر تجھے منظور ہے پھر آنکھ لڑا
یہ بھی اک جنگ ہے او آنکھ لڑانے والے

کی تو عیار سی سازش ہے ولے غنچہ دہن
چٹکیوں میں ہیں یہ جوبن کے اڑانے والے

ان کے ہنسنے پہ نہ جا ان کے ہنسانے سے نہ ہنس
تیرے ہنسنے پہ جو ہنستے ہیں ہنسانے والے

بن بلائے ترے آ کر تجھے بہکاتے ہیں
سخت نا خواندہ ہیں یہ تجھ کو پڑھانے والے

اشک خونیں کی ہوں میں سیل میں ڈوبا رہتا
یہ میرا رنگ ہے او پان چبانے والے

یوں گجر صبح کا جلدی سے بجے وصل کی رات
ارے بے رحم ارے دل کے ستانے والے

گزری جو مجھ پہ سو گزری ہے نہ گزری تجھ پر
گھڑی گھڑیال کی گھڑیال بجانے والے

کیوں نہ ان نالوں کو میں پاے بہ زنجیر رکھوں
اے جنوں کون ہیں یہ غل کے مچانے والے

جب کہا میں نے کہ سن حال کہا طعن سے یہ
تم سلامت رہو احوال سنانے والے

پاؤں کو ہاتھ لگایا تو لگا کہنے سرک
تجھ کو قربان کروں ہاتھ لگانے والے

مطلع مطلع احساںؔ سے تو ہو رشک قمر
تجھ پہ عاشق ہوئے پیغام کے لانے والے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse