سن رکھو اسے دل کا لگانا نہیں اچھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سن رکھو اسے دل کا لگانا نہیں اچھا
by واجد علی شاہ

سن رکھو اسے دل کا لگانا نہیں اچھا
دنیا یہ بری ہے یہ زمانہ نہیں اچھا

سب لوٹ لیا ایک نظر دیکھ کے مجھ کو
اے دز‌د نگہ دل کا چرانا نہیں اچھا

کیوں جھینپتے ہو غیروں میں ہاں پھر تو کہو وہ
گالی ہی تو تھی بات بنانا نہیں اچھا

عریاں بدنی پر نہ حبابوں کی پڑے آنکھ
دریا میں مری جان نہانا نہیں اچھا

افسوس کی صورت نہ بناؤ نہ رلاؤ
دل پستہ ہے ہونٹوں کا چبانا نہیں اچھا

روتے ہیں ہنساتے ہو بھری بزم میں صاحب
چپ بیٹھے رہو دھیان بٹانا نہیں اچھا

کوچے سے چلے جائیے اخترؔ کہیں اب اور
مضمون بہت عشق کا چھانا نہیں اچھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse