سنگ جفا کا غم نہیں دست طلب کا ڈر نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سنگ جفا کا غم نہیں دست طلب کا ڈر نہیں
by نظم طباطبائی

سنگ جفا کا غم نہیں دست طلب کا ڈر نہیں
اپنا ہے اس پر آشیاں نخل جو بارور نہیں

سنتے ہو اہل قافلہ میں کوئی راہ بر نہیں
دیکھ رہا ہوں تم میں سے ایک بھی راہ پر نہیں

موت کا گھر ہے آسماں اس سے کہیں مفر نہیں
نکلیں تو کوئی در نہیں بھاگیں تو رہ گزر نہیں

پہلے جگر پر آہ کا نام نہ تھا نشاں نہ تھا
آخر کار یہ ہوا آہ تو ہے جگر نہیں

صبح ازل سے تا ابد قصہ نہ ہوگا یہ تمام
جور فلک کی داستاں ایسی بھی مختصر نہیں

برگ خزاں رسیدہ ہوں چھیڑ نہ مجھ کو اے نسیم
ذوق فغاں کا ہے مجھے شکوۂ ابر تر نہیں

منکر حشر ہے کدھر دیکھے تو آنکھ کھول کر
حشر کی جو خبر نہ دے ایسی کوئی سحر نہیں

شبنم و گل کو دیکھ کر وجد نہ آئے کس طرح
خندہ بے سبب نہیں گریہ بے اثر نہیں

تیرے فقیر کا غرور تاجوروں سے ہے سوا
طرف کلہ میں دے شکن اس کو یہ درد سر نہیں

کوشک و قصر و بام و در تو نے بنا کئے تو کیا
حیف ہے خانماں خراب دل میں کسی کے گھیر نہیں

نالہ کشی رقیب سے میری طرح محال ہے
دل نہیں حوصلہ نہیں زہرہ نہیں جگر نہیں

شاطر پیر آسماں واہ ری تیری دست برد
خسرو و کیقباد کی تیغ نہیں کمر نہیں

شان کریم کی یہ ہے ہاں سے ہو پیشتر عطا
لطف عطا کا کیا ہو جب ہاں سے ہو پیشتر نہیں

لاکھ وہ بے رخی کرے لاکھ وہ کج روی کرے
کچھ تو ملال اس کا ہو دل کو مرے مگر نہیں

سن کے برا نہ مانئے سچ کو نہ جھوٹ جانئے
ذکر ہے کچھ گلہ نہیں بات ہے نیشتر نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse