سنو گے مجھ سے میرا ماجرا کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سنو گے مجھ سے میرا ماجرا کیا
by اسماعیل میرٹھی

سنو گے مجھ سے میرا ماجرا کیا
کہا کرتے ہیں افسانوں میں کیا کیا

نہیں تشویش آئندہ کہ ہو کب
گزشتہ کا تحیر ہے کہ تھا کیا

نہ کر تفتیش ہے خلوت نشیں کون
تأمل کر کہ ہے یہ برملا کیا

ہے اک آئینہ خانہ بزم کثرت
بتاؤں غیر کس کو ماسوا کیا

فقط مذکور ہے اک نسبت خاص
مقدر ہے خبر کیا مبتدا کیا

جہاں نقش قدم ہو روح قدسی
وہاں پہنچے گی عقل نارسا کیا

لگاؤں شیٔاً للہ کی صدا کیوں
بھلا دوں یفعل اللہ ما یشا کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse