سنبلِ تر ہے پریشاں زلفِ اکبر دیکھ کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سنبلِ تر ہے پریشاں زلفِ اکبر دیکھ کر
by میر انیس

سنبلِ تر ہے پریشاں زلفِ اکبر دیکھ کر
کٹ گیا ہے ماہِ تاباں روئے انور دیکھ کر

آب ہو جائے گا حُسنِ روئے اکبر دیکھ کر
سامنے آئینہ لانا، اے سکندر دیکھ کر

جب چلی اعدا پہ تیغِ شہ، پکارے جبرئیل
یا حُسین ابنِ علی! خادم کے شہپر دیکھ کر

حشر تھا اہلِ حرم میں وقتِ قتلِ شاہِ دیں
روتے تھے دشمن بھی شہ کو زیرِ خنجر دیکھ کر

خم ہوئی شہ کی کمر، ہاتھوں کی طاقت گھٹ گئی
دونوں شانوں سے قلم، دستِ برادر دیکھ کر

کی رسائی بختِ حُر نے جب، تو پہنچا شہ کے پاس
آ گیا خود راہ پر جنت کا رہبر دیکھ کر

جب جھپٹ کر بابِ خیبر کو اکھاڑا آپ نے
ہو گئے کفار ششدر، زورِ حیدر دیکھ کر

کربلا کے بَن میں جا پہنچے جو شاہِ بحر و بر
خوش ہوئے مقتل کو سب انصار و یاور دیکھ کر

مسکرائے دیکھ کر صحرا کو ہم شکلِ نبی
تن گئے دریا کو عباسِ دلاور دیکھ کر

ہو چکیں جس وقت مُہریں فردِ قتلِ شاہ پر
رو دیے خود شاہ اپنے خوں کا محضر دیکھ کر

خاک پر بے دم پڑے ہیں سب عزیز و اقربا
روتے ہیں شبیر لاشوں کو برابر دیکھ کر

کہتے تھے یہ حلق ہے نانا کا میرے حلق پر
پھیرنا شمشیر او شمرِ ستمگر دیکھ کر

خلد میں یاد آئی جب عباس کو بچوں کی پیاس
رو دیا وہ با وفا بھی سوئے کوثر دیکھ کر

پیشِ خالق سب ہیں یکساں، رشک او غافل نہ کر
آپ کو کم دیکھ کر، اوروں کو برتر دیکھ کر

آسماں پر شرم سے برقِ درخشاں چھپ گئی
ذوالفقارِ حیدرِ صفدر کے جوہر دیکھ کر

صُرّۂ خاکِ شفا سے یوں کھِلا تربت میں دل
جس طرح بلبل ہو بالیدہ گُلِ تر دیکھ کر

کربلا کو ہند سے جاتے اگر ہم اے انیس
شاد ہو جاتے وہ صحرائے منور دیکھ کر


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.