سنا ہے کوچ تو ان کا پر اس کو کیا کہیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سنا ہے کوچ تو ان کا پر اس کو کیا کہیے
by واجد علی شاہ

سنا ہے کوچ تو ان کا پر اس کو کیا کہیے
زبان خلق کو نقارۂ خدا کہیے

مسی لگا کے سیاہی سے کیوں ڈراتے ہو
اندھیری راتوں کا ہم سے تو ماجرا کہیے

ہزار راتیں بھی گزریں یہی کہانی ہو
تمام کیجیے اس کو نہ کچھ سوا کہیے

ہوا ہے عشق میں خاصان حق کا رنگ سفید
یہ قتل عام نہیں شوخئ حنا کہیے

تراب پائے حسینان لکھنؤ ہے یہ
یہ خاکسار ہے اخترؔ کو نقش پا کہیے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse