سنا ہم کو آتے جو اندر سے باہر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سنا ہم کو آتے جو اندر سے باہر
by شاد لکھنوی

سنا ہم کو آتے جو اندر سے باہر
پھرے الٹے پیروں باہر سے باہر

کڑی میں نہ دے ساتھ یار دلی تک
شرر چوٹ کھا کر ہو پتھر سے باہر

یوں ہی کالعدم ہم میان لحد تھے
مٹایا نشاں اس پہ ٹھوکر سے باہر

نہ کر ہرزہ گردی جو ذی آبرو ہے
نکلتا نہیں آئنہ گھر سے باہر

جناں سے ہوئی مدت آدم کو نکلے
وطن سے ہوں میں زندگی بھر سے باہر

وہ محروم دولت ہوں برگشتہ قسمت
اڑے خاک گھر میں جو ہو برسے باہر

مٹے گردش بخت کیا لاغروں کی
نہ ہو کاہ گرداب چکر سے باہر

لڑاتے جو ہو شادؔ سے گھر میں آنکھیں
نظر ڈالو ہم پر بھی تیور سے باہر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse