سنا بھی کبھی ماجرا درد و غم کا کسی دل جلے کی زبانی کہو تو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سنا بھی کبھی ماجرا درد و غم کا کسی دل جلے کی زبانی کہو تو
by سائل دہلوی

سنا بھی کبھی ماجرا درد و غم کا کسی دل جلے کی زبانی کہو تو
نکل آئیں آنسو کلیجہ پکڑ لو کروں عرض اپنی کہانی کہو تو

تمہیں رنگ مے شیخ مرغوب کیا ہے گلابی ہو یا زعفرانی کہو تو
پلائے کوئی ساقئ حور پیکر مصفا کشیدہ پرانی کہو تو

تمنائے دیدار ہے حسرت دل کہ تم جلوہ فرما ہو میں آنکھیں سینکوں
نہ کہہ دینا موسیٰ سے جیسے کہا تھا مری عرض پر لن ترانی کہو تو

وفا پیشہ عاشق نہیں دیکھا تم نے مجھے دیکھ لو جانچ لو آزما لو
تمہارے اشارے پہ قربان کر دوں ابھی مایۂ زندگانی کہو تو

کہاں میں کہاں داستاں کا تقاضا مرے ضبط درد نہاں کا ہے کہنا
پھر اس پر یہ تاکید بھی ہے برابر نہ کہنا پرانی کہانی کہو تو

مرے نامۂ شوق کی سطر میں ہے جگہ اک جو سادہ وہ مہمل نہیں ہے
میں ہو جاؤں خدمت میں حاضر ابھی خود بتانے کو اس کے معانی کہو تو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse