سمجھ کے حور بڑے ناز سے لگائی چوٹ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سمجھ کے حور بڑے ناز سے لگائی چوٹ
by احمد حسین مائل

سمجھ کے حور بڑے ناز سے لگائی چوٹ
جو اس نے آئنہ دیکھا تو خود ہی کھائی چوٹ

نظر لڑی جو نظر سے تو دل پر آئی چوٹ
گرے کلیم سر طور ایسی کھائی چوٹ

لبوں پہ بن گئی مسی جو دل پر آئی چوٹ
جگہ بدل کے لگی کرنے خود نمائی چوٹ

بڑے دماغ سے مارا نظر سے جب مارا
بڑے غرور سے آئی جو دل پر آئی چوٹ

کسی کا طور پہ نکلا ہے ہاتھ پردے سے
بڑا مزا ہو کرے گر تری کلائی چوٹ

یہ دوڑ دھوپ لڑکپن کی یک قیامت ہے
کہ ٹھوکروں سے قیامت نے خوب کھائی چوٹ

ابھی اٹھی نہ تھی نیچی نگاہ ظالم کی
تڑپ کے دل نے کہا وہ جگر پہ آئی چوٹ

جو آئے حشر میں وہ سب کو مارتے آئے
جدھر نگاہ پھری چوٹ پر لگائی چوٹ

جو دل کا آئنہ مل مل کے ہم نے صاف کیا
پھسل پھسل کے تمہاری نظر نے کھائی چوٹ

کلف نہیں ہے نشاں ہے یہ چاند ماری کا
ہمارے چاند نے لو چاند پر لگائی چوٹ

غش آ رہا ہے مجھے ذکر لن ترانی سے
لگی ہے دل پہ مرے لو سنی سنائی چوٹ

رکیں گے کیا کف گستاخ دست رنگیں سے
کہیں نہ کھائے ترا پنجۂ حنائی چوٹ

دل و جگر کو بتا کر وہ لوٹنا میرا
وہ پوچھنا ترا کس کس جگہ پر آئی چوٹ

مریض ہجر یہ سمجھا جو چمکی چرخ پہ برق
یہ آگ سینکنے لائی شب جدائی چوٹ

اٹھے تڑپ کے اٹھے تو گرے گرے تو مرے
پھڑک کے رہ گئے وہ چوٹ پر لگائی چوٹ

پڑے گی آہ جو میری کھلیں گے بند قبا
شب وصال کرے گی گرہ کشائی چوٹ

گرا ہوں خلد سے لنکا میں پہلے طور پہ بعد
جہاں جہاں میں گیا ساتھ ساتھ آئی چوٹ

وہ جھانک جھانک کے لڑتے ہیں مجھ سے یہ کہہ کر
جو ہم نے وار کیا تم نے کیوں بچائی چوٹ

جو درد دل میں اٹھا ان کی یاد کھچ آئی
دکھاتی ہے اثر جذب کہربائی چوٹ

اٹھا اٹھا کے دل مضطرب نے دے ٹپکا
گرا گرا کے مجھے چوٹ پر لگائی چوٹ

نگاہ شوخ سے جس دم نگاہ شوق لڑی
بڑا ہی لطف رہا یہ گئی وہ آئی چوٹ

لگائی اس نے جو ٹھوکر تو جی اٹھا مائلؔ
نکل کے جان پھر آئی کچھ ایسی کھائی چوٹ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse