سلامت ہے سر تو سرہانے بہت ہیں
Appearance
سلامت ہے سر تو سرہانے بہت ہیں
مجھے دل لگی کے ٹھکانے بہت ہیں
جو تشریف لاؤ تو ہے کون مانع
مگر خوئے بد کو بہانے بہت ہیں
اثر کر گئی نفس رہزن کی دھمکی
کہ یاں مرد کم اور زنانے بہت ہیں
معطل نہیں بیٹھتے شغل والے
شکار افگنوں کو نشانے بہت ہیں
کرو دل کے ویرانے کی کنج کاوی
دبے اس کھنڈر میں خزانے بہت ہیں
نہ اے شمع رو رو کے مر شام ہی سے
ابھی تجھ کو آنسو بہانے بہت ہیں
ہوا میری روداد پر حکم آخر
کہ مشہور ایسے فسانے بہت ہیں
نہیں ریل یا تار برقی پے موقوف
چھپے قدرتی کارخانے بہت ہیں
بچے کیونکہ بے چارہ مرغ گرسنہ
بہ کثرت ہیں دام اور دانے بہت ہیں
بس اک آستانہ ہے سجدہ کے قابل
زمانہ میں گو آستانے بہت ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |