سلامت ہے سر تو سرہانے بہت ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سلامت ہے سر تو سرہانے بہت ہیں
by اسماعیل میرٹھی

سلامت ہے سر تو سرہانے بہت ہیں
مجھے دل لگی کے ٹھکانے بہت ہیں

جو تشریف لاؤ تو ہے کون مانع
مگر خوئے بد کو بہانے بہت ہیں

اثر کر گئی نفس رہزن کی دھمکی
کہ یاں مرد کم اور زنانے بہت ہیں

معطل نہیں بیٹھتے شغل والے
شکار افگنوں کو نشانے بہت ہیں

کرو دل کے ویرانے کی کنج کاوی
دبے اس کھنڈر میں خزانے بہت ہیں

نہ اے شمع رو رو کے مر شام ہی سے
ابھی تجھ کو آنسو بہانے بہت ہیں

ہوا میری روداد پر حکم آخر
کہ مشہور ایسے فسانے بہت ہیں

نہیں ریل یا تار برقی پے موقوف
چھپے قدرتی کارخانے بہت ہیں

بچے کیونکہ بے چارہ مرغ گرسنہ
بہ کثرت ہیں دام اور دانے بہت ہیں

بس اک آستانہ ہے سجدہ کے قابل
زمانہ میں گو آستانے بہت ہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.