سفر ہے دشوار خواب کب تک بہت پڑی منزل عدم ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سفر ہے دشوار خواب کب تک بہت پڑی منزل عدم ہے
by نسیم دہلوی

سفر ہے دشوار خواب کب تک بہت پڑی منزل عدم ہے
نسیمؔ جاگو کمر کو باندھو اٹھاؤ بستر کہ رات کم ہے

نسیمؔ غفلت کی چل رہی ہے امنڈ رہی ہیں قضا کی نیندیں
کچھ ایسا سوئے ہیں سونے والے کہ جاگنا حشر تک قسم ہے

جوانی و حسن و جاہ و دولت یہ چند انفاس کے ہیں جھگڑے
اجل ہے استادہ دست بستہ نوید رخصت ہر ایک دم ہے

بسان دست سوال سائل تہی ہوں ہر ایک مدعا سے
نیاز ہے بے نیازیوں سے بغل میں دل صورت صنم ہے

مآل کار جہان فانی کبھی نہیں ایک قاعدے پر
جو چار دن ہے وفور راحت تو بعد اس کے غم و الم ہے

دریغ کرنا نہ زور بازو مٹا لے ساری کدورتوں کو
ہوس نہ رہ جائے کوئی قاتل کہ سر تہ خنجر دودم ہے

زبان روکو بہک رہے ہو سرور دوشینہ جوش پر ہے
مے وصال شب تمنا ہر ایک لب سے ابھی بہم ہے

یہ مصرع مخبر مصیبت کمال ہم کو پسند آیا
نسیمؔ جاگو کمر کو باندھو اٹھاؤ بستر کہ رات کم ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse