سر کو نوشہ کے مرے شاہ نے باندھا سہرا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سر کو نوشہ کے مرے شاہ نے باندھا سہرا
by نسیم میسوری

سر کو نوشہ کے مرے شاہ نے باندھا سہرا
سورۂ نور کا دکھلاتا ہے جلوہ سہرا

ریش یعقوب نے رکھی ہے رخ یوسف پر
چشم بد دور کہ ہے زلف زلیخا سہرا

باغ الفت سے حسینوں نے جو کلیاں بینی
اس پری کے لئے پریوں نے بنایا سہرا

جدولیں سونے کی یاقوت رقم نے کھینچی
یا ہے مصحف پہ سر لوح مطلا سہرا

جلوۂ طور کا موسی کو گماں ہو جاتا
میرے نوشہ جو ذرا دیکھتے سر کا صحرا

شعلۂ حسن جو ان کا نہ چھپا سہرے میں
عجز سے آپ کو قدموں پہ گرایا سہرا

پوتے پڑپوتوں کے تم باندھیو سر کو سہرے
جیسا بابا نے تمہارے تمہیں باندھا سہرا

حب کا تعویذ بنے پھول ہر اک سہرے کا
وصل یار اس کو ہو جس نے ترا دیکھا سہرا

اوفتادہ بھی ہے یہ اور بڑا شوخ بھی ہے
گل رخسار کا لے لیتا ہے بوسہ سہرا

سہرا جو باندھتے ہیں ہند میں نوشاہوں کو
چشم بد کے لئے شاید ہے یہ نکلا سہرا

پنجۂ مہر سے زہرا نے بلائیں لے لیں
جب نسیمؔ چمن شوق نے لکھا سہرا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse