سر کو تن سے مرے جدا کیجے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سر کو تن سے مرے جدا کیجے
by میر مہدی مجروح

سر کو تن سے مرے جدا کیجے
یہ بھی جھگڑا ہے فیصلہ کیجے

مجھ پہ تہمت صنم پرستی کی
شیخ صاحب خدا خدا کیجے

لعل کو اس کے لب سے کیا نسبت
یہ بھی اک بات ہے سنا کیجے

لو وہ آتے ہیں جلد حضرت دل
فکر صبر گریز پا کیجے

ہم غنیمت اسی کو سمجھیں گے
لو وفا وعدۂ جفا کیجے

اپنا کینہ بنوں کہ یاد رقیب
کس طرح اس کے دل میں جا کیجے

یاں تو مطلب ہی کچھ نہیں رکھتے
جو کسی سے کہیں روا کیجے

مدعی گھات ہی میں رہتے ہیں
کیوں کہ واں عرض مدعا کیجے

دکھ جو مجروحؔ نے سہے غم سے
اس کا کیا شرح ماجرا کیجے

مر گیا وہ پہ یاد آتا ہے
اس کا کہنا کہ آہ کیا کیجے

سخت مشکل ہے یار کا کھلنا
یہ گرہ کس طرح سے وا کیجے

صبر کے فائدے بہت ہیں ولے
دل ہی بس میں نہ ہو تو کیا کیجے

غیر کی پاسباں کی درباں کی
کس کی جا جا کے التجا کیجے

اس کی وہ آنکھ اب نہیں مجروحؔ
جلد کچھ اپنا سوجھتا کیجے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse