سر کاٹ کے کر دیجئے قاتل کے حوالے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سر کاٹ کے کر دیجئے قاتل کے حوالے
by حیدر علی آتش

سر کاٹ کے کر دیجئے قاتل کے حوالے
ہمت مری کہتی ہے کہ احسان بلا لے

ہر قطرۂ خوں سوز دروں سے ہے اک اخگر
جلاد کی تلوار میں پڑ جائیں گے چھالے

نادان نہ ہو عقل عطا کی ہے خدا نے
یوسف کی طرح تم کو کوئی بیچ نہ ڈالے

ہستی کی اسیری سے شرر سے ہیں سوا تنگ
چھوٹے تو ادھر پھر کے نہیں دیکھنے والے

سالک کو یہی جادے سے آواز ہے آتی
پامال جو ہو راہ وہ منزل کی نکالے

صیاد چمن ہی میں کرے مرغ چمن ذبح
لبریز لہو سے ہی درختوں کے ہوں تھالے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse