سر مرا کاٹ کے پچھتائیے گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سر مرا کاٹ کے پچھتائیے گا
by خواجہ محمد وزیر

سر مرا کاٹ کے پچھتائیے گا
کس کی پھر جھوٹی قسم کھائیے گا

تھام لوں دل کو ذرا ہاتھوں سے
ابھی پہلو سے نہ اٹھ جائیے گا

کہئے یاران عدم کیا گزری
کچھ لب گور سے فرمائیے گا

یوسف حسن اگر غم ہوگا
آپ یعقوب نظر آئیے گا

کر کے اثبات دہن کیجئے وصف
دیکھیے منہ کی ابھی کھائیے گا

کم بھی دینے میں بہت فائدہ ہے
بوسہ اک دیجئے دس پائیے گا

خط پہ خط لکھیے گا اے شاہ سوار
گھوڑی کاغذ کی بھی دوڑائیے گا

مردم چشم سے آئے جو حجاب
آنکھ کے پردے میں چھپ جائیے گا

کیا گریباں نے گلا گھونٹا ہے
ادھر اے دست جنوں آئیے گا

کہہ کے پاؤں سے چلے یار کے گھر
ہم جو اٹھنے لگیں سو جائیے گا

کہہ کے یہ تم ہو بڑے ہر بابے
در بدر کیا مجھے پھروائیے گا

کیوں بناوٹ سے اجی روتے ہیں آپ
جھوٹے موتی کسے دکھلائیے گا

جام ساقی سے جو مانگا تو کہا
بھر کے اشک آنکھ میں پی جائیے گا

مصحف رخ کی قسم میں ہے مزہ
ہم سے قرآن یہ اٹھوائیے گا

خط غلامی کا نہیں اے یوسف
خط جو نکلا ہے نہ شرمایئے گا

ہم نے یوسف جو کہا کیوں بگڑے
مول لے گا کوئی بک جائیے گا

حضرت کعبہ جو بن جائیے عرش
دل کی وسعت نہ کبھی پائیے گا

ہم بھی آ نکلیں گے مسجد میں وزیرؔ
خشت خم لے کے جو بنوائیے گا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse