سر شمع ساں کٹائیے پر دم نہ ماریے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سر شمع ساں کٹائیے پر دم نہ ماریے
by حیدر علی آتش

سر شمع ساں کٹائیے پر دم نہ ماریے
منزل ہزار سخت ہو ہمت نہ ہاریے

مقسوم کا جو ہے سو وہ پہنچے گا آپ سے
پھیلائیے نہ ہاتھ نہ دامن پساریے

طالب کو اپنے رکھتی ہے دنیا ذلیل و خوار
زر کی طمع سے چھانتے ہیں خاک نیاریے

تنہائی ہے غریبی ہے صحرا ہے خار ہے
کون آشنائے حال ہے کس کو پکاریے

تم فاتحہ بھی پڑھ چکے ہم دفن بھی ہوئے
بس خاک میں ملا چکے چلئے سدھاریے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse