سرگشتگی میں عالم ہستی سے یاس ہے
Appearance
سرگشتگی میں عالم ہستی سے یاس ہے
تسکیں کو دے نوید کہ مرنے کی آس ہے
لیتا نہیں مرے دل آوارہ کی خبر
اب تک وہ جانتا ہے کہ میرے ہی پاس ہے
کیجیے بیاں سرور تپ غم کہاں تلک
ہر مو مرے بدن پہ زبان سپاس ہے
ہے وہ غرور حسن سے بیگانۂ وفا
ہرچند اس کے پاس دل حق شناس ہے
پی جس قدر ملے شب مہتاب میں شراب
اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے
ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسدؔ
مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے
کیا غم ہے اس کو جس کا علیؔ سا امام ہو
اتنا بھی اے فلک زدہ کیوں بد حواس ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |