سرگشتگی میں عالم ہستی سے یاس ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سرگشتگی میں عالم ہستی سے یاس ہے
by مرزا غالب

سرگشتگی میں عالم ہستی سے یاس ہے
تسکیں کو دے نوید کہ مرنے کی آس ہے

لیتا نہیں مرے دل آوارہ کی خبر
اب تک وہ جانتا ہے کہ میرے ہی پاس ہے

کیجیے بیاں سرور تپ غم کہاں تلک
ہر مو مرے بدن پہ زبان سپاس ہے

ہے وہ غرور حسن سے بیگانۂ وفا
ہرچند اس کے پاس دل حق شناس ہے

پی جس قدر ملے شب مہتاب میں شراب
اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے

ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسدؔ
مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے

کیا غم ہے اس کو جس کا علیؔ سا امام ہو
اتنا بھی اے فلک زدہ کیوں بد حواس ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.